232

زینب قتل واقعہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ناکامی قرار

اسلام آباد۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے قصور میں سات سالہ معصوم بچی زینب کے زیادتی کے بعد قتل واقعہ کو انتظامیہ،چائلڈ پروٹیکشن بیورو سمیت تمام مشینری کی ناکامی قرار دیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔چیئرمین کمیشن جسٹس(ر)علی نواز چوہان نے کمیشن کے ممبر اسلام آباد چوہدری شفیق اور لیگل ایڈوائزر عبدالباسط گیلانی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں واقعہ کے بارے میں رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ قصور واقعہ انتظامیہ،چائلڈ پروٹیکشن بیوروکی غفلت کا مقدمہ ہے۔

کمیشن نے 2015ء میں ایسے واقعات کی نشاندہی کی تھی قصور کے متعلقہ تین تھانوں میں مسلسل ہونے والے ان واقعات پر ایکشن نہ لینا انتظامیہ کی مکمل ناکامی ہے۔گزشتہ12 واقعات میں ملوث تمام ملزمان بری ہو چکے ہیں استغاثہ اور انتظامیہ کے درمیان کوئی تعاون موجود نہیں ہے۔کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ایسے واقعات ہونے سے پہلے روکنا ہوگا۔

پولیس آفیسران کو تبدیل کر دینے سے واقعات نہیں روکیں گے غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے کمیشن نے پنجاب پولیس کو ڈویژن سمیت تقسیم کرنے کی تجویز دی ہے چیئرمین کمیشن علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ ایک آئی جی لاکھوں پولیس والوں کو کنٹرول نہیں کر سکتا اس لیے ریجنز میں آئی جی تعینات ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی استعداد کار میں اضافہ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ زینب کیساتھ زیادتی کرنے والا ملزم ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا۔ملک میں بچے بالکل غیر محفوظ ہیں۔ممبر کمیشن چوہدری شفیق نے پنجاب میں کام کرنے والے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی خامیوں کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہاکہ اس بیورو کا مینڈیٹ محدود ہے جبکہ ریاست کا ریسپونس نہ ہونے کے برابر ہے۔

2015ء کے واقعات میں غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کمیشن کی سفارشات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور نہ ہی مروجہ قوانین پر عمل کیا جا رہا ہے ۔انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کرنا پارلیمنٹ اور عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔لیگل ایڈوائزر سید عبدالباسط گیلانی نے کہا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق زینب کے مقدمہ میں فریق بنے گا اور پنجاب کے پراسیکیوشن کی نگرانی کی جائیگی۔

انہوں نے کہا کہ زینب کے مقدمہ میں ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے ملزم کو بھاگنے میں مدددی ہے اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ زینب کی لاش ڈھونڈنے کے بعد پولیس نے ورثاء سے دس ہزار روپے انعام مانگا جبکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھی ورثاء سے پیسے مانگے گئے۔انہوں نے بتایا کہ قصور کے تھانہ اے ڈویژن میں گزشتہ اڑھائی سال سے ایک ہی ایس ایچ او تعینات ہے۔

چیئرمین کمیشن کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم کراچی جبکہ مردان واقعہ کی تحقیقات کے لیے بھی ٹیم بھیجا دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہادتیں اکٹھی کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔لواحقین سے ڈی این اے اور لاش برآمدگیکے لیے پیسے مانگنا قابل مذمت عمل ہے۔انہوں نے زینب کے قتل پر ہونے والے احتجاج میں قتل ہونے والے دو افراد کے قتل کے واقعہ کی بھی مذمت کی۔