پاکستان کو قائم ہوئے تین چوتھائی صدی بیت چکی ہے اور آج ہم نہایت اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم ایک بااعتماد قوم بن چکے ہیں اور ایٹمی اثاثوں کے بعد ہماری حیثیت دنیا بھر میں اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ اس پون صدی میں ملک نے جہاں بہت سے مصائب و مسائل کا سامنا کیا اور بہت سےنشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ اس تمام عرصے میں اقلیتیں، اکثریت کے ساتھ ملکی ترقی میں شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے کےلیے ہمیشہ تیار ہیں۔
ملک کا کوئی بھی شعبہ اُٹھا کر دیکھیے، خواہ تعلیم ہو، صحت ہو، امن و عامہ، دفاع، ثقافت، اسپورٹس یا ملکی ترقی، ہر شعبے میں اقلیتیں گزشتہ پون صدی سے اہم خدمات انجام دے رہی ہیں۔
اگر آپ ملکی ترقی میں اقلیتوں کا حصہ (Contribution) دیکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر لکھی گئی دو کتابوں (پاکستان اور اقلیتیں/ احمد سلیم، یہ دیس ہمارا ہے/ فادر فرانسس ندیم) کا ضرور مطالعہ کیجئے جس میں مصنفین نے ملکی ترقی کے ہر شعبے میں اقلیتوں کے کردار کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ اقلیتی ہیروز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو پروفیسر سلامت اختر کی لکھی گئی کتاب ’’پاکستان کے گمنام کردار‘‘ کا ضرور مطالعہ کیجئے۔
ہمیں اس بات کو جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ اقلیتیں کسی بھی ملک میں برابر کی شہری ہوتی ہیں اور ملک کی ہر چیز پر اُن کا اتنا ہی حق ہوتا ہے جتنا کسی اکثریتی طبقے کے فرد کا ہوتا ہے۔ یہاں ایک بات اہم یہ ہے کہ پاکستان کی اقلیتیں ہجرتی (Migrated) نہیں بلکہ یہ قیام پاکستان سے پہلے یہاں آباد تھیں اور پاکستان بننے کے بعد انہوں نے پاکستان میں ہی رہنا پسند کیا۔ کیونکہ اقلیتوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی مٹی سے ہی جڑی ہوئی ہیں اور بعد میں اگر اقلیتی خاندان دوسرے ملکوں میں گئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کےلیے یہاں زمین اس قدر تنگ ہوگئی تھی کہ اُنہوں نے اپنی جان بچانے کےلیے محفوظ ممالک کی طرف رخ کرنا پسند کیا۔
اس صورتحال میں ایک بات اہم ہے کہ اگر اکثریت، اقلیت کو مذہب کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے صرف پاکستانی شہری کے طور پر دیکھیں تو وہ اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکیں گی کہ ملک کی اقلیتیں یہاں مستقل آباد ہیں اور اُن کا بھی ملکی ترقی میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا اکثریت کا۔ لیکن سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اقلیتوں کو بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ ’’تم محض اقلیت ہو اور ملکی ترقی میں تمہارا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘
یاد رہے کہ قیام پاکستان سے قبل اقلیتیں (ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی، یہودی، بہائی) موجود تھیں لیکن حضرت قائداعظم کی رحلت کے بعد ملک میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اقلیتوں نے اُنہیں بھانپ کر اور ان تلخ تجربات کے بعد جو اس وقت اقلیتوں کو درپیش آئے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنا آبائی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ تلاش کریں۔ ملک چھوڑنے کا فیصلہ ان کےلیے انتہائی تکلیف دہ تھا جو انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں کیا۔ اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ قائداعظم اور ان کے رفقا نے کبھی اقلیتوں کو 5 فیصد کوٹے اور اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لالی پوپ نہیں دیے تھے اور نہ ہی وہ کبھی اس قسم کی قانون سازی کے حق میں تھے جن کی وجہ سے اقلیتوں کو دیوار سے لگادیا جائے بلکہ پہلی دستور ساز اسمبلی کے وقت تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ملک یہاں بسنے والے ہر انسان کا ہے اور یہاں ہر کوئی برابر ہے۔ یہاں کسی کو اقلیت اور اکثریت کے فرق کا احساس نہ ہوگا۔ لیکن بانی پاکستان کی رحلت کے بعد پاکستان کی جو شکل بنائی گئی اُس میں ایسا لگتا تھا کہ ملک کو بنانے اور خوشحال بنانے میں اقلیتوں کا کوئی حصہ نہیں۔
بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ملک میں ایسی قانون سازی کی گئی جس میں اقلیتوں کو پسماندہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ سب سے پہلے ملک کے آئین میں درج کردیا گیا کہ ملک کا صدر اور وزیراعظم غیر مسلم نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ چیف جسٹس اے آر کارنیلیس نے اس وقت کے صدر اور وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ملک کے قائم مقام صدر/ وزیراعظم کے اختیارات بھی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھائے۔ جداگانہ انتخابات کے ذریعے اقلیتوں کے سیاسی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، جس کو بحال کرنے میں اقلیتوں کو کم و بیش دو دہائیوں تک جدوجہد کرنا پڑی اور جب جداگانہ انتخابات کا خاتمہ ہوا اور مخلوط انتخابات بحال ہوئے تو اقلیتیں ایک مرتبہ پھر کسمپرسی کا شکار ہوگئیں، کیونکہ مخلوط انتخابات کی شکل میں اقلیتوں کو براہ راست نمائندگی سے محروم کردیا گیا اور انہیں ’’الیکشن نہیں سلیکشن‘‘ کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پون صدی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں آباد ی کے تناسب سے اکثریتی نشستوں میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن اقلیتی آبادی اس تمام عرصے میں 3 یا 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گنے چنے اقلیتی نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود تو ہیں لیکن وہ اقلیتوں کے نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر اقلیتیں ان نام نہاد اقلیتی سیاسی لیڈروں کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ ان کی اپنی سیاسی پارٹیوں میں ہی ان کی آواز نہیں سنی جاتی اور کبھی ترس کھا کر جب انہیں اسمبلیوں میں موقع ملتا ہے تو اقلیتی ایشوز پر انہیں بولنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اب جبکہ وہ خود صوابدید ی نشستوں پر آئے ہیں اس لیے وہ اپنا احتجاج کا حق بھی کھو چکے ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اقلیتوں کی خدمات کے حوالے سے کچھ کتابیں موجود ہیں جن کے ذریعے اقلیتوں کی خدمات کو جانا جاسکتا ہے۔ راقم سمجھتا ہے کہ اقلیت کے ساتھ اکثریت کو بھی یہ کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی ترقی میں اقلیتوں کے کردار کو صحیح معنوں میں جان سکیں۔ ماضی کی حکومتوں نے مختصر سی کوشش کی کہ مذاہب اور اقلیتی ہیروز کی خدمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے لیکن بعد میں کچھ طاقتور طبقات کی مخالفت کی وجہ سے انہیں نصاب سے نکال دیا گیا۔ میرا موقف یہ ہے کہ نصاب جو بچے کے مائنڈ سیٹ کو ترتیب دیتا ہے، اسی نصاب میں اقلیتوں کو ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اقلیتیں مطالبہ کرتی ہیں کہ خدارا اُنہیں دوسرے ملکوں کی اکثریت اور مغرب کے ساتھ بریکٹ نہ کیا جائے، کیونکہ محض مختلف مذہب ہونے کی وجہ سے کسی کی حب الوطنی پر شبہ کرنا غلط ہے۔
پنجاب میں مسیحی اقلیت تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود کسمپرسی کا شکار نظر آتی ہے۔ آج بھی خاکروبوں کی اسامی اقلیت کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے۔ اکثریت اور اقلیت کے آپس کے جھگڑوں کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے اور قصوروار ہمیشہ اقلیت ہی مانی جاتی ہیں۔ پون صدی گزر جانے کے بعد اکثریت کی طرف سے اقلیت کو قبولیت نہیں دی جارہی۔ آج بھی اقلیتیں خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے باہم مل کر اقلیتی آبادیوں میں ہی رہنا پسند کرتی ہیں اور جو اقلیتی فرد ہمت کرکے اکثریتی رہائشی علاقوں میں رہائش پذیر ہونے کی کوشش کرے اس کے ساتھ اکثریت کی طرف سے اجنبیت کا رویہ رکھا جانا عام سی بات ہے۔ اقلیتیں سوال کرتی ہیں کہ پون صدی گزر جانے کے بعد کیا اب بھی اقلیتوں کو برابر شہری سمجھا جائے گا یا نہیں؟ یہ سوال جب کسی اکثریتی سیاسی نمائندے سے کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ دیگر ملکوں اور خاص کر پڑوسی ملک کی نسبت پاکستان میں اقلیتوں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں جبکہ اقلیتوں کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ آپ ہمارا موازنہ دوسرے ممالک کی اقلیتوں کے ساتھ نہ کریں کیونکہ ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور ہمیں وہ تمام حقوق حاصل ہونے چاہئیں جس کا وہ برسوں سے مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
تین چوتھائی صدی گزر جانے کے بعد اقلیتیں یہ سوال دوبارہ اٹھا رہی ہیں کہ 75 سال بہت ہوتے ہیں کسی کو قبول کرنے کے لیے۔ اس لیے ریاست اقلیتوں کو برابر کا شہری بنانے کےلیے ہر ممکن اقدامات کرے۔ نصاب میں ملکی ترقی میں اقلیتوں کی خدمات کا ذکر ضرور کیا جائے۔ راقم جب بھی ملتان ایئر فورس کے بھرتی دفتر کے پاس سے گزرتا ہے تو تاسف ہوتا ہے کہ وہاں دونوں جنگوں کے ایئر فورس کے ہیروز ایئر کموڈور ایم ایم عالم اور اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی تصاویر تو نمایاں نظر آتی ہیں لیکن ان دونوں جنگوں میں ان کا ساتھ دینے والے مسیحی ساتھی گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کی تصویر نظر نہیں آتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیسل چویدری کی تصویر بھی وہاں آویزاں ہوتی تاکہ اُس شاہراہ سے گزرنے والا جان سکتا کہ اقلیتوں کی بھی ایئر فورس کے لیے خدمات ہیں۔ بالکل اسی طرح دیگر فورسز میں بھی اقلیتی ہیروز کی خدمات کو نصاب کے ذریعے نمایاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل دفاع کے شعبے میں اقلیتی خدمات کو جان سکے۔
اقلیتوں کا دیرینہ مطالبہ ان کی آباد ی کو صحیح طور پر سامنے لانے کا ہے تاکہ اقلیتیں اسی تناسب سے اپنے مطالبات ازسرنو تیار کرسکیں۔ اقلیتیں چاہتی ہیں کہ مخلوط انتخابات کی اصل شکل کو بحال کیا جائے اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو ختم کرکے انہیں براہ راست نمائندگی کا حق دیا جائے۔ اس ضمن میں اقلیتوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ وقتی فائدے کو مت دیکھیے بلکہ اقلیتی قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے براہ راست نمائندگی کا مطالبہ کریں اور اکثریت اور اقلیت سے ووٹ لے کر اسمبلیوں کا حصہ بنیں، تب ہی وہ صحیح معنوں میں نہ صرف اپنی قوم بلکہ اپنے ملک کے لیڈر بن سکیں گے اور تب ہی وہ صحیح معنوں میں اپنی قوم کےلیے آواز بلند کرسکیں گے۔ اقلیتوں کے سیکیورٹی کے خدشات دور کیے جائیں تاکہ اقلیتیں، اکثریت کے ساتھ مل کر رہ سکیں۔ جہاں انہیں عدم تحفظ کا بالکل احساس نہ ہو۔
پون صدی میں کم از کم تین نسلیں پروان چڑھتی ہیں، اس لیے اب نہایت ضروری ہے کہ اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ ماضی اور حال کی ان کی خدمات کو نمایاں کیا جائے اور برابر کا شہری بنانے کےلیے ریاست اور حکومتی سطح پر ہر قسم کے ممکن اقدامات کیے جائیں کیونکہ اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت اقلیتوں نے اس دھرتی کو اپنی دھرتی سمجھتے ہوئے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت ہندوستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے مسیحی سیاسی رہنما ایس پی سنگھا کو مسیحیوں کو ہندوستان میں رہنے اور تحفظ کے حوالے سے یقین دہانی کرائی تھی لیکن ایس پی سنگھا نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ہم قائداعظم کے ساتھ پاکستان میں رہنا پسند کریں گے۔ اسی طرح سکھوں کے معروف لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کرپان لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جو ملے گا پاکستان، ملے گا اُس کو قبرستان‘‘ تو اُس وقت مسیحی اقلیتی رہنما ایس پی سنگھا نے نعرہ لگایا تھا کہ ’’سینے پہ گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے‘‘۔
اقلیتیں تقاضا کرتی ہیں کہ یہ باتیں نوجوان نسل کو بتانے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو پاکستان بنانے اور پاکستان کو خوشحال بنانے میں اقلیتوں کے کردار کا اندازہ ہوسکے، تب ہی وہ صحیح معنوں میں اقلیت کو محض اقلیت نہیں بلکہ برابر کا شہری سمجھیں گے۔