میرے رب کی دنیا کے رنگ نرالے ہیں، ایک جانب کروڑوں انسان بے رحم سیلابی ریلوں میں بہہ رہے ہیں، بھوک و افلاس تو ان کا مقدر تھا مگر آج تا حد نظر پانیوں کے درمیان بھی ان کو پینے کا پانی میسر نہیں۔ پھول جیسے نازک اور فرشتوں جیسے ہر گناہ سے پاک معصوم بچوں کی بھوک دیکھ کے مائیں اپنی بے بسی اور بے سروسامانی پر سسکیاں لے رہی ہے اور دوسری طرف ملکہ برطانیہ کے جنازے پر پیسہ سیلاب کی طرح بہایا جارہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ثانی کے انتقال کے بعد آخری رسومات کی ادائیگی اور تدفین تک گیارہ دن تقریبات جاری رہیں، ویسٹ منسٹر ہال میں چار روزہ دیدار، وہاں سے بکنگھم پیلس روانگی، وہاں سے ویلنگٹن آرچ آمد، پھر سینٹ جارج چیپل تک سفر، وہاں دعائیہ تقریب، پھر شاہی والٹ میں اتارنے کے بعد تدفین، مخصوص تابوت، جس پر سنہری چھڑی، گلوب پر نصب صلیب، ہر قدم عجیب شاہی پروٹوکول، چیونٹی کی رفتار سے چلتی مخصوص گاڑیاں، حکومتی زعماء کی شرکت، اس دوران نئے بادشاہ کی تاج پوشی، اکیسویں صدی میں گم شدہ انسانی تاریخ کی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس سب پر کتنا خرچہ آیا ہوگا؟ ملکہ کے جنازے کی ان گیارہ روزہ تقریبات میں مبینہ طور پر 6ارب ڈالرز خرچ کیے گئے، یعنی پاکستانی روپوں میں حساب لگایا جائے تو ملکہ کے اس جنازے پر 1331 ارب روپے خرچ ہوئے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا ترقیاتی بجٹ بھی تقریباً اس سے نصف ہوتا ہے، اس وقت برطانوی حکومت معاشی مسائل کا شکار ہے۔ دنیا بھر سے جو لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آئے، ان کے اخراجات بھی اربوں میں ہونگے۔
یہ معاملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا۔ رسوم کی بجا آوری کا سلسلہ مزید چلتا رہے گا۔ جس پر اٹھنے والے اخراجات الگ ہوں گے۔ لیکن اس سب کا آنجہانی ملکہ کی روح یا مردہ جسم کو کوئی فائدہ؟ انسانی عقل و فہم کے مطابق کوئی فائدہ نہیں۔ چلو اگر ملکہ کو نہیں تو کسی دوسرے انسان کو فائدہ ہوگا بلکہ کسی ذی روح کو فائدہ ہوگا تو جواب بالکل واضح ہے کہ بالکل نہیں ہوگا۔
مگر مجال ہے کسی لبرل، سیکولر یا انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے ان فضولیات پر ایک حرف بھی زبان سے نکالا ہو، کہ جی بڑا پیسہ ضایع کر دیا۔ خاص کر وہ لوگ جو عید قربان پر قربانی کے جانور کے چند ہزار روپے اور حج اور عمرے جیسے اللہ رب العزت اور نبی رحمتﷺ کی پسندیدہ اور محبوب عبادات پر جب مسلمان اپنی مرضی سے خرچ کریں تو انھیں آگ لگ جاتی ہے۔ اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اس رقم سے کئی واٹر کولر لگوائے جاسکتے تھے، کسی غریب کی بچی کی شادی ہو سکتی تھی، مگر آج جب آنجہانی ملکہ کی تدفین پر اربوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں تو نہ کسی کو انسانیت یاد آئی اور نہ ہی کسی غریب کی مدد۔
اگر ملکہ برطانیہ کے جنازے کا تقابل ایک مسلم بادشاہ (نام نہاد ہی سہی) امارات کے حکمراں شیخ خلیفہ بن زید النہیان جن کا حال ہی میں (13 مئی کو) انتقال ہوا کے جنازے سے کریں تو دین مبین کا فرق پوری دنیا پر واضح ہوجائے گا۔ اسلامی تعلیمات و روایات کی برکت سے ان کا جنازہ سادگی کا نمونہ تھا۔ صبح انتقال اور مغرب کے بعد تدفین۔ نہ دیدار عام کے لیے چار دن انتظار، نہ ہی لمبا چوڑا شاہی پروٹوکول۔ ایک عام مسلمان کی طرح عزیزواقارب اور عام مسلمانوں نے میت اٹھائی اور قبرستان پہنچا دیا۔
سفید کفن میں لپیٹی ہوئی میت قبر میں اتار کر رب العالمین کے حوالے کی گئی، اب رب جانے اور اس کا بندہ !
ملکہ برطانیہ کے جنازے پر تاریخی فضول خرچی کو دیکھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ مال لوٹا ہوا ہو تو اسے ایسے ہی لٹایا جاتا ہے۔ جی ہاں، لوٹا ہوا مال، ہم ہرگز نہیں بھولے کہ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں کیسے اس خطے میں گھسا، ناصرف لوٹ مار کی بلکہ لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ہم اپنی اذیت ناک تاریخ کیسے بھول سکتے ہیں۔ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف ہماری شکایات کی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔
1700 میں یہ بہروپیے تاجروں کا لبادہ اوڑھ کر اس برصغیر میں داخل ہوئے جو تنِ تنہا دنیا کی 22.6 فی صد دولت پیدا کرتا تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی لیکن تاج برطانیہ کی لوٹ مار کے بعد یہی حصہ 1952 میں گر کر صرف 3.8 فیصد رہ گیا اور 20ویں صدی کے آغاز پر درحقیقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا غریب ترین خطہ (پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش) بن گیا۔ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے اس خطے کو کتنا نقصان پہنچایا، یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔
ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی مہناز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی نقصانات کا کل تخمینہ 2015 کے زرمبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتا ہے۔
چار سو سال پہلے جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیرسر ٹامس رو کو شک گزرا تھا کہ آیا واقعی ہندوستان اتنا امیر ہے کہ اس کے شہنشاہ کو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں تولا جا سکتا ہے، اور کہیں دوسرے پلڑے میں درباریوں نے ریشم کی تھیلیوں میں پتھر تو نہیں ڈال دیے؟ اگر کسی طرح سر ٹامس رو کو واپس لا کر انھیں یہ اعداد و شمار دکھا دیے جائیں تو شاید ان کی بدگمانی ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔
تاج برطانیہ کی اس لوٹ مار نے ہمیں غربت کی گھاٹیوں میں دھکیل دیا اور خود ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑے اپنے جنازوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اس نام نہاد ترقی یافتہ ملک کی ملکہ کئی دہائیوں تک جس تاج کو اپنے سر پر سجائے بیٹھی رہیں، اس پر جڑا ہوا دنیا کا مہنگا ترین کوہ نور ہیرا بھی ہم سے چرا لیاگیا۔ کوہ نور ہیرا اس خطے کی ثقافت کا حصہ تھا، جس کی کی قیمت دس ہزار ارب روپے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوہ نور ہمارے ثقافت و روایات کا امین اور شاندار ماضی کی علامت اور انمول ہے۔
اس ہیرے کو حاصل کرنے کے لیے کئی بار قانونی راستے اختیار کیے گئے لیکن ہماری امانت ہمیں نہیں سونپی گئی۔ آج پاکستان تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ سوا تین کروڑ آبادی کو اس سیلاب نے بری طرح متاثر اور قابل رحم اور بے سروسامانی کی حالت میں سڑکوں پرلا کھڑا کیا ہے۔ لاکھوں گھر بہہ گئے، لاکھوں مویشی پانی کی نذر ہوگئے، کھیتوں میں کھڑی فصلیں سیلابی ریلے اپنے ساتھ بہا لے گئے، سیکڑوں لوگ موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔
لاکھوں بچے بوڑھے، عورتیں، مرد، جوان اور بوڑھے بیماریوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے یہ کسی بڑے امتحان سے کم نہیں، جس کی معیشت پہلے ہی وینٹی لیٹر پر لگی ہوئی تھی۔ ایسی صورتحال میں اگر صرف پاکستان کو کوہ نور ہیرا لوٹا دیا جائے تو وہ اس بحران سے نکلنے میں مدد دے گا۔
ایک شخصیت جو دنیا سے چلی گئی اس کی آخری رسومات پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بجائے، سیلاب کی تباہ کاریوں سے دم توڑتی انسانیت کو بچایا جاتا تو یہ عمل حقیقی طور پر انسانیت کی خدمت کہلاتا۔ مشکل حالات میں پاکستان کی مدد برطانیہ کا فرض بھی ہے اور اس پر قرض بھی کیونکہ اس کی ساری ترقی یہاں سے لوٹی ہوئی دولت کی مرہون منت ہے۔
اپنے قارئین کو کوہ نور ہیرے کی اصل قیمت کے بارے بتاتے چلیں۔ اس گوہر نایاب کی اصل قیمت وہ ہے جو افغانستان کے شاہ شجاع نے رنجیت سنگھ کو بتائی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ’’کوہ نور‘‘ چھیننے کے بعد حیرانی، خوشی اور تجسس سے اس کو اپنی اکلوتی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا توساتھ ہی شاہ شجاع سے پوچھا کہ اس کی کتنی قیمت ہوگی۔ شاہ شجاع نے جواب دیا کہ ’’اس کی قیمت لاٹھی ہے۔
میرے بزرگوں نے لاٹھی کے زور پر چھینا تھا، تم نے مجھ کو لاٹھی مار کر چھینا ہے، کوئی اور ایساآئے گاکہ وہ تم کو لاٹھی مار کر تجھ سے چھین لے گا‘‘ شاہ شجاع کا کہا درست ثابت ہوا۔
برطانیہ کی لاٹھی رنجیت سنگھ کے جانشین پر کاری ضرب سے لگی اور ’’کوہ نور‘‘ اس کا ہوا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں اپنے دورہ بھارت میں واضح کردیا تھا کہ ’’کوہ نور‘‘ واپس نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان ہو یا انڈیا، افغانستان ہو یا سکھ مہاراج۔ کسی کی لاٹھی اگر برطانیہ سے مضبوط ہے تو ’’کوہ نور‘‘ مل سکتا ہے وگرنہ ’’کوہ نور‘‘ کے صرف خواب ہی دیکھیں گے اور خواب ہی ہم غریبوں کا مقدر ہیں اور تسلی کی بات یہ ہے کہ خوابوں پر نہ تو حکومت پابندی لگا سکتی ہے اور نہ ہی مفتاح اسماعیل کوئی ٹیکس۔