956

نا قابل فراموش کھلاڑی

سکواش کے لیجنڈ ہاشم خان کانام تو آپ نے اکثر سنا ہو گا لیکن ان کے چھوٹے بھائی اعظم خان کو اتنا سراہا نہیں گیا کہ جتنا وہ اسکے مستحق ہیں کئی مبصرین کے خیال میں تو وہ ہاشم خان کے اگر ہم پلہ نہ تھے تو ان سے کم بھی نہ تھے اگر یہ بات آدھی بھی سچ ہو تو سوال اٹھتا ہے کہ انہیں اتنا نظر انداز کیوں کیا گیا؟ غالباً اسکی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بڑے بھائی اور سکواش کے عظیم کھلاڑی ہاشم خان کے سائے کے نیچے ہی رہے‘انہوں نے برٹش اوپن سکواش ٹورنامنٹ یکے بعد دیگرے یعنی 1959 سے1962 کے درمیان جیتا جو کہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا اور اس سے پیشتر وہ چھ سال تک برٹش اوپن سکواش ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچ کر صرف اپنے بڑے بھائی سے ہارے اور یہ بات1953 اور1958 کے درمیانی عرصے کی ہے اسکا مطلب یہ ہوا کہ پورے دس برس یعنی ایک دہائی تک اعظم خان بھی صفحہ اول کے عالمی سکواش سطح کے کھلاڑی بلکہ چیمپئن رہے کیونکہ ان دنوں برٹش اوپن سکوا ش ٹورنامنٹ کی وہی اہمیت تھی کہ جو ٹینس میں ومبلڈن کی ہے ۔

بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اعظم خان اپنے بھائی ہاشم خان کی طرح سکواش کے دیوانے نہ تھے وہ ائیر فورس کے میس میں ٹینس بال بوائے تھے وہ سکواش کی جانب 26 برس کی عمر میں راغب ہوئے جب ہاشم خان نے سکواش کا عالمی ٹائٹل جیتا تھا تو انہیں عالمی سطح کے سکواش کے مقابلوں میں شرکت سے پیشتر تیاری کیلئے ایک پارٹنر درکار تھا اور اس کام کیلئے انہوں نے اپنے بھائی کو چن لیا اعظم خان نے ہاشم خان کو مایوس نہ کیا اور صرف دو سال میں و ہ خود سکواش کے اتنے استاد بن گئے کہ سوائے اپنے بڑے بھائی ہاشم خان کے دنیامیں دوسرا کوئی بھی سکواش کا کھلاڑی انہیں ہرا نہ سکا1953 میں پاکستان ائیر فورس کے افسران نے خوداپنے پیسوں پر فنڈ جمع کرکے اعظم خان کو انگلستان بھجوایا تاکہ وہاں وہ اپنے بڑے بھائی ہاشم خان کیساتھ برٹش اوپن سکواش ٹورنامنٹ میں حصہ لے۔

اسکے بعد دنیانے دیکھاکہ اعظم خان 1962ء تک برٹش اوپن سکواش ٹورنامنٹ پر چھائے رہے 1962ء میں جب انہوں نے برٹش اوپن سکواش ٹائٹل جیتا تو ان کی ایڑی میں اتنا شدید زخم پیدا ہوا کہ انہوں نے سکواش کو خیر آباد کہہ دیا 1962ء میں اعظم خان پروفیشل سکواش سرکٹ کے عالمی سطح پر بادشاہ تصور کئے جاتے تھے اعظم خان اس دوران 1956ء میں ہی مستقل طور پر انگلستان شفٹ ہو چکے تھے بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ائیر مارشل نور خان کے کہنے پر اعظم خان نے پاکستان میں اس وقت سکواش کے احیاء کی کافی کوشش کی جب وہ پاکستان ائیر فورس کے سربراہ تھے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بات کا تذکرہ میڈیا میں یا سکواش کے حلقوں میں شاذ ہی کیا جاتا ہے یہ ائیر مارشل نور خان کی کاوش کا نتیجہ تھا کہ کسی دور میں دنیا میں سکواش کے جو کھلاڑی ہوتے تھے ان میں پہلے دس کا تعلق پاکستان سے ہوتا تھا یہاں پر اس بات کا بھی ذکر بے جا نہ ہو گاکہ آفتاب جاوید کو بھی اتنا یاد نہیں کیا گیاکہ جتنا اسکا حق بنتا ہے 1964ء اور 1969ء کے دوران اس نے دنیائے سکواش میں پاکستان کا جھنڈا بلند رکھا تھا اس کے والدین کا تعلق بھی نواکلی پشاورسے تھا جو گرداس پور جا بسے تھے جہاں 1938 میں آفتاب جاوید پیدا ہوا اس نے یکے بعد دیگرے 1963ء اور1965کے درمیان تین مرتبہ برٹش ایمچر ٹائٹل جیتا۔