پاکستان میں ایسا کیا ہے جو متنازعہ نہیں؟نئے مالی سال دوہزار اٹھارہ انیس کیلئے وفاقی بجٹ کی تیاریاں مکمل کرنیوالے مسرور ہیں تو اس حوالے سے ملک کے تین صوبوں کے تحفظات اپنی جگہ غور طلب ہیں لیکن وفاقی حکومت کسی کے بات سننے کو تیار نہیں اورستائیس اپریل کو بجٹ پیش کرنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہے جسکا حجم پچپن کھرب روپے متوقع ہے‘نئے بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں دفاع کیلئے دس فیصد اور وفاقی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی دس فیصد اضافے کی تجویز شامل ہے۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ بارے خیبرپختونخوا‘سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے قومی اقتصادی کونسل اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ وفاق نے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں صوبائی منصوبوں کو شامل نہیں کیا‘ جسکے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں جاری اجلاس میں بیٹھے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں‘یقیناًملک کے سب سے بڑے اقتصادی معاملات پر فیصلہ کرنے والے اجلاس کا اگرکورم ہی پورا نہیں ہوتا‘ تو اس سے اگلے مالی سال کا ترقیاتی بجٹ منظور نہیں ہو سکتا وفاقی حکومت کا مؤقف کمزور ہے کہ وفاقی اور صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی اقتصادی کونسل اجلاس سے منظوری ضروری نہیں کیونکہ وفاقی بجٹ کی منظوری پارلیمنٹ سے ہوتی ہے۔
اسلئے صرف وفاقی ترقیاتی منصوبے ہی اسکا حصہ ہوسکتے ہیں اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں صوبوں کی ترقی کیلئے ذمہ دار ہیں‘ جنہیں اپنے مالی وسائل اور ترقیاتی حکمت عملیوں کا جائزہ لینا چاہئے‘ سوال یہ ہے کہ اگر وفاق صوبوں کو مالی امداد نہیں دے گا‘ تو صوبے اپنی آمدن کس ذریعے سے حاصل کریں گے۔ قومی اقتصادی کونسل میں جاری چپقلش کو اگر عام آدمی کیلئے آسان بنا کر پیش کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ ہروفاقی بجٹ 95 فیصد ماضی کی آمدن و اخراجات جیسا ہی ہوتا ہے جس میں تنخواہیں‘ پنشن‘دفاع‘قرضوں کی ادائیگیاں وغیرہ جیسے مستقل اخراجات کیلئے رقم مختص کرنا ہوتی ہے‘ حکومت نے دفاع‘ تنخواہوں اور پنشن میں آئندہ مالی سال کیلئے دس‘ دس فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے تو بس یہی فرق ہوگا جبکہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے پیسے مختص نہیں کئے جا رہے تو بجٹ بے معنی عمل ہے‘ جسکا مقصد صرف اور صرف جاری اخراجات کی ادائیگی ہے‘صوبوں کا زور اِس بات پر ہے کہ وفاقی حکومت کی ترقیاتی حکمت عملی میں کوئی نئی سکیم شامل نہ کی جائے کیونکہ اسمبلی کی مدت اکتیس مئی کو ختم ہو رہی ہے تاہم اقتصادی کونسل اجلاس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ صرف جاری منصوبوں کو شامل کیا جائے اور اگر نئے منصوبے شامل کئے جائیں گے ۔
تو دیگر صوبائی منصوبوں کو بھی برابری کی سطح پر دیکھا جائے‘کیا اخلاقی طور پر وفاقی حکومت کو آئندہ پورے سال کی آمدن و اخراجات کے تعین پر مبنی بجٹ پیش کرنا چاہئے جبکہ اسکی آئینی مدت ایک ماہ میں ختم ہونے والی ہے؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ نواز لیگ کے صوبائی رہنما امیر مقام کی ایماء پر انکے صوبے میں ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا جارہا ہے‘ اور اسی قسم کے تحفظات کا اظہار سندھ کے وزیراعلیٰ نے بھی کیا کہ جنہیں نوشیرو فیروز میں جاری وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر عدم اطمینان ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مذکورہ منصوبے وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کے انتخابی حلقے کی حد تک محدود ہیں! موجودہ حکومتوں کی آئینی مدت اَوائل جون میں ختم ہو جائیگی‘ جسکے بعد آئینی طور پر ساٹھ دن کے اندر عام انتخابات ہوں گے امکان یہ ہے کہ نئی منتخب حکومتوں کی تشکیل ہوتے ہوتے‘ نصف اگست گزر چکا ہوگا جبکہ مالی سال تیس جون کو ختم ہو جاتا ہے‘ روایت کے مطابق وفاقی اور صوبائی بجٹ جون میں منظور ہوکر یکم جولائی سے نافذالعمل ہو جاتے ہیں۔ حکومتوں کی آئینی مدت مئی میں پوری ہوکر جون میں نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہوں گی‘ اس لئے بجٹ ایک اہم ضرورت ہے اور انہی حکومتوں کی ہی آئینی ذمہ داری بھی ہے‘ جو گزشتہ پانچ سال تک وفاق اور صوبوں میں اقتدار میں رہیں‘۔
صوبہ پنجاب اپنا بجٹ تیار کئے بیٹھا ہے لیکن وہ اسے پیش کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار دکھائی دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے آنیوالی نگران حکومت پیش کرے خیبرپختونخوا حکومت نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ بجٹ پیش نہیں کیا جائے گا جبکہ دیگر صوبوں کی حکمت عملی واضح نہیں اور نہ ہی آئندہ بجٹ کے بارے ان کا اصولی مؤقف معلوم ہو سکا ہے‘ اصولی طور پر دیکھا جائے تو عوام کے منتخب نمائندے بجٹ جیسی اہم و آئینی ذمہ داری کسی نگران حکومت پر نہیں چھوڑ سکتے‘ جس کا کام صرف نگرانی ہوتا ہے‘ سیاسی حکومتوں کو اپنے بجٹ ضرور پیش کرنے چاہئیں تاکہ وہ انکی کامیابی یا ناکامی کے ذمہ دار ہوں‘نگران حکومتیں خواہ کتنی ہی قابل اور ماہرین مالیات و معاشیات پر مشتمل ہوں‘وہ ایک آئینی ضرورت ضرور ہیں لیکن وہ عوام کا حق نیابت کماحقہ نہیں ادا کر سکتیں اسلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی آخری‘ لیکن اس اہم ترین ذمہ داری سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہئے اور وفاقی ہویاصوبائی ایسے بجٹ پیش کرنے چاہئیں جس سے قومی ترقی کی رفتار زیادہ ہو‘ اگر مہنگائی کی شرح کم نہیں کی جا سکتی تو متبادل کے طور پر توانائی بحران کی شدت میں کمی اور روزگار کے مواقع بڑھانے سے عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ممکن ہے۔