698

نئے صوبے

عام انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل ایک مرتبہ پھر پنجاب کودو صوبوں میں تقسیم کرنے کی بحث چھڑ گئی ہے ‘یہ بحث گزشتہ عام انتخابات سے قبل بھی بڑی شدومد سے چھیڑی گئی تھی تاہم ان عام انتخابات کے بعد چار سال سے زائد عرصے تک یہ بحث چھیڑنے والے سوئے رہے اور اب بیدار ہوئے ہیں‘یوں واضح ہو گیاہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کی جانب سے مخصوص اوقات میں پنجاب کی تقسیم کا ایشو چھیڑنا سیاسی مفادات کے حصول کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا‘ اس سے ہٹ کر بھی ایک ایسے وقت میں جب سیاسی جماعتیں اور قوم بڑی بے چینی سے نئے انتخابات کی راہ تک رہی ہیں ‘ موجودہ پارلیمنٹ کو محض چند روزہ مہمان کے طور پرلیا جا رہا ہے اور امیدیں و توقعات آنیوالے سیٹ اپ سے وابستہ کر لی گئی ہیں پنجاب کی دو حصوں میں تقسیم کی بات کتنی ہی دیانتداری سے کیوں نہ کی جائے بات بننے والی نہیں‘جہاں تک بحیثیت مجموعی پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ ہے اس حوالے سے مجموعی طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے تاہم نئے صوبوں کی تعداد ‘نئے صوبوں کے مالی وسائل کے تعین اور انتظامی کیفیات جیسے معاملات پر موجود اختلافات دور کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کی آمادگی اور مشاورت سے مناسب ماحول‘ہم آہنگی اور یگانگت کی فضا پیدا کرنیکی ضرورت برقرار ہے۔

‘اس میں کو ئی شک نہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور صوبوں کے انتظامی معاملات نبھانے میں درپیش مشکلات سالہا سال سے نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ نئے صوبوں کا قیام ناگزیر حیثیت اختیار کر چکا ہے‘فاٹا سے لیکر ہزارہ تک ‘پوٹھوہار سے لیکر بہاولپور تک اور سندھ میں بھی مختلف علاقوں کی حد بندی کر کے نئے صوبے قائم کرنے کی گنجائش بھی نظر آرہی ہے جبکہ حزب اقتدار و حزب اختلاف اصولی طور پر نئے صوبوں کے قیام کی حامی بھی ہیں لیکن اس معاملے کی جزئیات کا اتفاق رائے سے تعین وقت طلب امر ہے جسے جلدی میں نمٹانے یا سیاست کی نذر کرنے کی کوشش قومی مفادسے متصادم نئے مسائل و مشکلات کو جنم دے گی‘ملک میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق تجاویز تیار کر نے کیلئے اگست 2012ء میں ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اس پارلیمانی کمیشن نے غیر روایتی انداز میں بڑی چابکدستی سے اپنا کام مکمل کیا لیکن مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پہلے مذکورہ کمیشن کے بائیکاٹ اور پھر پارلیمانی کمیشن کی رپورٹ پر جارحانہ رد عملِ اس رپورٹ میں کمیشن کے بعض اراکین کی جانب سے تحریر کردہ اختلافی نوٹس‘ اسوقت کی حکمران جماعت ( پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے بعض پارلیمنٹیرینز کی مخالفت اور جنوبی پنجاب کی سول سو سائٹی کے نمائندوں کی جانب سے کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات نے معاملے کو حل کی جانب لے جانے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا ڈالا‘فی الوقت نئے صوبوں کے قیام کے موضوع پر جاری بحث مباحثے اہم قومی ایشو کو سلجھاؤ کی طرف لے جانے کے بجائے الجھانے کا باعث بن رہے ہیں ۔

ملکی سطح کے سیاسی قائدین سے لیکر گلی محلوں کی سیاست کرنے والے رہنماؤں تک نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے اپنی اپنی سوچ ٗاپنے اپنے سیاسی پس منظر اور اپنے اپنے فائدے ونقصان کو سامنے رکھ کر رائے زنی کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں ملک کے مجموعی قومی مفاد کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں موضوع کی مناسبت سے میڈیا پر پیش ہونے والے ٹاک شوز میں کہیں تجاویز کی بھرمار سامنے آ رہی ہے تو کہیں تضادات کا غبار اٹھتا دکھائی دیتا ہے نئے صوبوں کے قیام کے معاملے کو ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کی نذر ہونے سے بچانا تمام سیاسی قوتوں اور سول سو سائٹی کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ پہلے عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے اور پھر نئے جمہوری سیٹ اپ میں شروع دن سے اس مسئلے کو اتفاق رائے سے حل کی جانب لے جانے کیلئے پارلیمنٹ کی سطح پر کوششیں کی جائیں ‘اگر نئے صوبوں کے قیام کامعاملہ کہیں ووٹ بینک بڑھانے توکہیں وسائل پر قبضے ٗکہیں سیاسی مخالفین کی قوت پر ضرب لگانے تو کہیں محض عوام میں مقبولیت حاصل کرنے جیسے مفادات کا شکار رہا تو مسئلے کا حل ناممکن ہے۔