یہ غالباً 1984کے دسمبر کا آخری ہفتہ تھا جب پہلی بار برطانیہ کی زمین پر قدم رکھنے کا موقع ملا، بات کچھ یوں بنی کہ جمیل الدین عالیؔ، پروین شاکر اور میں کینیڈا اور امریکا کے ایک طویل مشاعراتی دورے سے واپس آرہے تھے اور انگلینڈ کے اس پڑاؤ کی وجہ بریک جرنی کے ساتھ ساتھ اپنے احباب سے ملاقات بھی تھی، عالی صاحب تو جہاں گرو آدمی تھے لیکن میرا اور پروین کا یہ پہلا سمندرپار کا سفر تھا، سو ہمارے لیے ہر چیز، جگہ اور محفل ایک نیا اور دلچسپ تجربہ تھی، سو یہ اس جذباتی کیفیت ہی کا اثر تھا کہ ہم اتنے طویل سفر کے بعد ابھی تک تازہ دم تھے۔
لندن میں برادرم مکرم جاوید سید اور یار جانی افتخار احمد بٹ مرحوم اپنے احباب کے ساتھ منتظر تھے، اگرچہ اس کے بعد سے لے کر حالیہ دورے کے درمیان کم از کم 15مرتبہ ادھر کا پھیرا لگ چکا ہے مگر بہت سی تاریخی، معاشرتی اور ادبی وجوہات کے باعث انگلینڈ کا قیام بیرونِ وطن سب سے زیادہ مزے دار اور دلچسپ ہوتا ہے کہ سارا ملک تقریباً آٹھ دس گھنٹے کے زمینی سفر میں سمٹ جاتا ہے اور اپنی کمیونٹی اس کے ہر حصے میں آباد ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے میر پور اور نواحی علاقوں سے جن بے گھر ہونے والے افراد کو برطانیہ نے دل کھول کر پناہ دی تھی وہ جدید زندگی کے تقاضوں ، انگریزی زبان اور ٹیکنالوجی سے تقریباً مکمل نابَلد تھے لیکن گزشتہ ساٹھ برس میں ان کی دوسری اور تیسری نسل نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور اپنے ٹیلنٹ کو منوایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے طالب علموں اور تاجروں نے بھی وہاں کی زندگی میں بہت سے ایسے نئے اور خوب صورت رنگ بھرے ہیں جن کی وجہ سے اب پاکستانی کمیونٹی پہلے سے بہت بہتر حالات میں ہے، بالخصوص ہماری بچیوں نے جس طرح تعلیم اور ہنر کے حوالے سے نئی بلندیوں کو چُھوا ہے اس کا ایک اظہارچند برس قبل اس وقت کے ہائی کمشنر برادرم ابن عباس کے ساتھ ایک محفل میں دیکھنے کو ملا جس میں غیر برطانوی نسل کی خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابیوں پر ایوارڈ پیش کیے جا رہے تھے۔
گزشتہ چند برسوں میں مجھے الخدمت ، انڈس اسپتال اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ساتھ وطنِ عزیز میں تعلیم اور صحت کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ فنڈ ریزنگ بنیاد پر پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ہے اور ہر بار یہ دیکھ کر دل کو بہت حوصلہ ملا کہ وطنِ عزیزمیں مدتوں سے جاری سیاسی بحرانوں اور عمومی طور پر سیاست دانوں کی ناکامیوں نے وہاں کے دوستوں کو بجا طور پر اضطراب میں مبتلا کیا ہے مگر اس کے باوجود کسی ہنگامی حالت یا عمومی سطح پر وطن اور اس کے اداروں کی ترقی کے لیے یہ لوگ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
مزید خوش کن بات یہ ہے کہ ان میں سے خاصے پڑھے لکھے اور اچھی نوکریوں کے حامل دوست بھی سب کے کام چھوڑ چھاڑ کر اور اپنے مالی مفادات کو ایک طرف رکھ کر رضا کاروں کی طرح اپنے پاکستان سے آنے والے ساتھیوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
بدقسمتی سے گزشتہ تین برس کووڈ کی وجہ سے دنیا بھرمیں سفری پابندیاں اور معاشی مسائل بڑھ گئے جس کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے والے بہت سے اداروںکو بھی طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ بیرونِ ملک سے جو فنڈ ان فنڈریزر کی معرفت اکٹھے ہوتے تھے وہ ایک دم بند ہوگئے اپنے دیگر وسائل کے باعث ان اداروں نے کسی نہ کسی طرح اپنے پروگراموں کو جاری تو رکھا مگر ان کے جو حصے براہ راست بیرونی امداد سے چلتے تھے وہ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوگئے مثلاً اکثر بیرونِ ملک مقیم دوستوں نے بعض بچوںکے سالانہ تعلیمی اخراجات کا ذمہ لے رکھا تھا۔
اب اُن بچوں کی اسکول، رہائش، تعلیم، کتابوں اور دیگر سہولیات کی ضرورت تو اپنی جگہ موجود تھی مگر اس کے لیے متعلقہ اخراجات آنا بند ہوگئے تھے اس کا زیادہ نقصان غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اور اس جیسے دیگر اداروں کو ہوا کہ ا ن کے زیادہ تر بلکہ بعض صورتوں میں تمام کے تمام اسکول تھے ہی گاؤں میں جہاں سے منافع اندوزی تو رہی ایک طرف معمولی فیس بھی کم کم ہی وصول ہوپاتی تھی یعنی اسکولوں کی عمارات کے اخراجات ، اساتذہ کی تنخواہیں اور تقریباً 40%بچوں کی مفت تعلیم کی وجہ سے جو معاشی بوجھ پڑتا تھا وہ انھی وطن اور تعلیم دوست بیرونِ وطن مقیم پاکستانیوں کی مدد سے ہی پورا کیا جاتا تھا۔دودفعہ کورونا سے ہیلو ہیلو کرنے اور عمر کے 78 سال پورے کرنے کے بعد یہ جسم مجھے لمبے سفر کی اجازت نہیں دیتا مگر میں اس لیے اس کی بات نہیں سنتا کہ دوسری طرف ہزاروں کے حساب سے بچے اور بچیاں ہیں جن کی تعلیم کا راستہ بند ہوجائے گا کہ تین سال کے تعطل نے پہلے ہی صورتِ حال بہت پیچیدہ کر رکھی ہے۔
سو اب انشاء اللہ میں 22ستمبر کو قطر ایئرویز کے ذریعے مانچسٹر پہنچوں گا اورحسب پروگرام بریڈ فورڈ، ملٹن کینز ، لندن، مانچسٹر، ایبرڈین اور گلاسگو میں برادرم عامر جعفری اور خالد مسعود خان کے ساتھ حاضری دُوں گا کہ اس مشکل گھڑی میں جب کہ تعلیم کا سلسلہ معطل ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اسکول بھی ازِ سر نوتعمیر طلب ہیں ہم سب مل کر اس کارِ خیر میں حصہ لیں اور اپنی اعانت کے ذریعے جلد سے جلد ان بچوں کو اسکولوں میں واپس لائیں اور یاد رکھیں کہ ہر وہ بچہ جو اسکول کی شکل دیکھے بغیر زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے وہ اپنی جہالت اور کم علمی کے باعث پہلے سے موجود مسائل میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اس بارہ روزہ دورے میں صرف تین دن لندن میں ایسے ملیں گے جب احباب سے ملا جاسکے گا کہ فی الوقت تو ڈاکٹر جاوید شیخ ، دردانہ انصاری ، نیلم فواز ، ساجد خان ، محمد انور شاہ، راشد عدیل ہاشمی، عابد علی بیگ، سہیل ضرار، فیضان عارف پاکستانی سفارت خانے اورعارف انیس سے کیے ہوئے وعدوں کو ان 72گھنٹوں میں سمیٹنے کی صورت سمجھ میں نہیں آرہی ۔ دُعا ہے کہ ربِ کریم صحت اور سلامتی سے رکھے اور جس مقصد کے لیے یہ سفر کیا جا رہا ہے اس پر اپنی رحمت کا سایا کردے ۔