برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس نے پارلیمنٹ کو جمہوریت کی سانس قرار دیا ہے اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ حکومت جمہوریت اور انسانی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کرلیا ہے کہ ہمارے پاس منتخب دو تین صوبائی حکومتیں تو ہیں لیکن بوٹ نہیں ہیں‘ جب تک پیچھے سے بوٹ نہ لگیں کام نہیں ہوتا۔
سابق وزیر اعظم یہ بھی مان چکے ہیں کہ ہماری حکومت ایجنسیوں کی مدد سے چل رہی تھی جو مجبور حکومت تھی اور ان کی مدد کے بغیر تو ہم پارلیمنٹ میں بجٹ بھی پاس نہیں کرا سکتے تھے جس کے لیے بھی ہمیں انھیں کہنا پڑتا تھا تو پارلیمنٹ میں ارکان آتے تھے۔
انھوں نے پارلیمنٹ کے لیے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز منتخب کرانے والے آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ چیف الیکشن کمشنر کے لیے کہا کہ ان کا تقرر بھی ہم نے ایجنسیوں کی یقین دہانی پر کیا تھا کہ وہ غیر جانبدار ثابت ہوں گے مگر بعد میں انھوں نے ہمیں مایوس کیا۔
اقتدار میں ہوتے ہوئے انھوں نے چیف الیکشن کمشنر پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا تھا کیونکہ وہ حکومت کے کہنے پر نہیں چل رہے تھے اور ڈسکہ الیکشن میں حکومتی امیدوار کا انتخاب مسترد کردیا تھا اور حکومتی امیدوار کو برقرار رکھنے کی حکومتی خواہش پر عمل کرنے کی بجائے دوبارہ الیکشن کرایا تھا جس میں حکومتی امیدوار ہار گیا تھا۔ سابق وزیر اعظم کے خیال میں چیف الیکشن کمشنر صرف اس صورت میں غیر جانبدار ثابت ہوتا ہے جب وہ برسر اقتدار لوگوں کی ہدایت پر چلے۔
حکومتی امیدوار کی کامیابی کے لیے سرکاری دھاندلی پر خاموش رہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ گرا ہوا ہوتا ہے۔عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے پارلیمنٹ کا انتخاب کرانے والے آئینی ادارے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ پر جتنے سنگین الزامات لگائے ہیں اتنے الزامات ماضی میں کسی کو لگانے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ الیکشن کمیشن ہی ملک میں عام انتخابات کرانے کا ذمے دار ہوتا ہے جس کے خلاف جانبداری کے الزامات سے پارلیمنٹ کی ساکھ پر سوالات اٹھتے ہیں مگر بغیر کسی ثبوت کے الیکشن کمیشن پر الزامات لگانا معمول بنا ہوا ہے۔
پارلیمنٹ کو سپریم کہا جاتا ہے جو نام کی حد تک سپریم ادارہ ہے جس کو مختلف امور سے متعلق قانون سازی کا کہنے کو تو اختیار حاصل ہے مگر سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کو خود ہی کبھی اہمیت نہیں دی۔ سینیٹ کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں کورم کا مسئلہ ہمیشہ رہتا ہے جہاں وزیر اعظم کا انتخاب ہونے کے بعد ہر وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آنا بھولتا رہا ہے وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کسی ضرورت اور مجبوری ہی میں آتا ہے اور پارلیمنٹ کی بجائے اپنی کابینہ کو ترجیح دیتا ہے ۔
ایکسپریس کے تجزیہ کاروں کے مطابق جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال ہو رہا ہے اور جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے کیونکہ عوام کے ووٹوں کو روندھا جاتا ہے۔ آئین ایک سوشل کنٹریکٹ ہے جسے عوام کے منتخب نمایندوں نے بنایا ہے۔
عوام کے نمایندے ہی پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں مگر یہ عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتے جن کے یہ نمایندے ہوتے ہیں اور یہ انھی کے خلاف قانون سازی کرتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت کا تعلق عوامی مفادات سے ہے ہی نہیں۔ اکثریت کے بل بوتے پر ہر حکومت اپنے مفاد مرضی اور اپوزیشن کو اپنے شکنجے میں رکھنے کی قانون سازی کرتی ہے پھر نئی حکومت آ کر اسے تبدیل کردیتی ہے اور مرضی کے کالے قانون بنا لیتی ہے ان کے نزدیک عوام کا مفاد اہم ہوتا ہی نہیں بلکہ ذاتی اور سیاسی مفادات ہی اہم ہوتے ہیں۔
ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہوتے ہیں جن کی کوئی ماہانہ تنخواہ تو مقرر نہیں مگر انھیں قانون کے مطابق بے حد مراعات میسر ہیں۔ انھیں اجلاس میں شرکت پر الاؤنسز، ٹی اے ڈی اے کے علاوہ وی آئی پی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی و سینیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلیاں بھی پارلیمان ہی کہلاتی ہیں اور ان سب کے لیے اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں جو حکومتیں عوام کا خون نچوڑ کر جمع کرتی ہیں اور یہ رقم عوام کے ان منتخب نمایندوں پر خرچ ہوتی آ رہی ہے جو کہنے کو عوام کے نمایندے ہوتے ہیں ان کی ترجیحات میں قانون سازی شامل ہے مگر ان کی توجہ حکومت سے عوام کے نام پر ترقیاتی فنڈ لینا، اسمبلیوں میں آ کر حاضری رجسٹر پر دستخط کرکے الاؤنسز کا حق دار بن جانا اور بعد میں اسمبلی ایوانوں میں جانے کی بجائے کیفے ٹیریاز میں گپیں مارنا، کورم کے لیے بجائے جانے والی گھنٹیوں پر کان نہ دھرنا، کیفے ٹیریاز میں معیاری کھانے کھا کر وزیروں اور محکموں کے دفاتر میں جا کر گپیں مارنا اور اپنے ذاتی کام نکلوانا ہوتا ہے۔
چوتھے پارلیمانی سال کے موقع پر یہ رپورٹ ہوا ہے کہ کے پی اسمبلی کے سب سے زیادہ اور سندھ اسمبلی کے سب سے کم اجلاس ہوئے یہ ان کی کارکردگی کا حال ہے۔ یہی کارکردگی قومی اسمبلی کی ہے۔ سینیٹ کی صورت حال اسمبلیوں سے بہتر ہے۔
نام نہاد جمہوریت میں عوام یہ پارلیمانی بوجھ اٹھاتے آ رہے ہیں جو اربوں روپے بنتا ہے جو ارکان اور اسمبلیوں پر خرچ ہو رہے ہیں جہاں سے عوام کو ریلیف نہیں دیا جاتا اور حکومتیں بھی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی ہیں کیونکہ ملک میں جمہوریت ان ہی اسمبلیوں کی وجہ سے ہے جہاں عوام کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔