905

مسابقتی دور

نئے زمانے کے والدین کا سخت مقابلہ ذرائع ابلاغ سے ہے‘ جس میں سرفہرست ٹیلی ویژن کمپیوٹر اور موبائل فون اور دیگر انواع و اقسام کے مواصلاتی آلات شامل ہیں‘ جو ابتدا میں بچوں کو مصروف رکھنے‘ انکی توجہ بٹانے‘ معلومات تک رسائی‘ تفریح طبع یا پھر رابطہ کاری جیسی ضرورت کی غرض سے تھمائے جاتے ہیں لیکن دھیرے دھیرے یہ بچوں کی زندگی کا جز اور ان کی عادات کا حصہ بن جاتے ہیں‘ جس سے بعدازاں چھٹکارہ پانا ممکن نہیں رہتا‘سچ پوچھیں توآج کے دور میں بے بس والدین کا دیرینہ سوال یہی ہے کہ کیا کریں؟آخر کس طرح اپنے بچوں کو موبائل‘ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر سکرین کی قید سے آزاد کرکے فطرت کی جانب مائل کیا جائے اور انہیں انسانی معاشرے کی سب سے بڑی خوبی یعنی آپسی رشتوں کے قریب لایا جائے؟ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ برق رفتار مواصلاتی دور میں‘ مشینوں پر انحصار‘ انتخاب نہیں مجبوری بن چکا ہے‘ علم سے لے کر کھیل‘ بینکاری سے لیکر خرید و فروخت‘ امتحان سے لیکر داخلے اور دوستی سے لیکر رشتے داریوں اور شادیوں تک ڈیجیٹل میڈیاچھایا دکھائی دیتا ہے‘ ایسے میں اس طلسم ہوشربا سے مکمل کنارہ کشی تو ممکن نہیں‘ البتہ چند آزمودہ ٹوٹکوں سے بے قابو جن کو تابع بنایا جاسکتا ہے۔ پہلی بات: والدین بذات خود مثال بنیں‘بچوں کی موجودگی میں اپنا وقت موبائل فون یا کمپیوٹر آلات پر خرچ کرنے کی بجائے سکرین ٹائم کو محدود کریں‘۔

یہ ہرگز ممکن نہیں کہ دفتر اور خانگی مصروفیات کے بعد والدین خود تو موبائل فون‘ کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں آسودگی تلاش کریں اور اپنے بچوں سے علم دوستی‘ کتب بینی اور صحت مند مشاغل کی توقع رکھیں اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچے کھلی ہوا میں کھیلیں‘ ورزش کریں‘ پودوں اور جانوروں سے پیار کریں اور انسانوں کے درمیان وقت گزاریں تو پہلے اپنے آپکو اس صحت مند طرززندگی کا مستقل بنیادوں پر عادی بنانا ہوگا بحیثیت والدین‘ نئے دور کی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور بچوں کو دیئے گئے آلات سے واقفیت ضروری ہے لیکن کوشش کی جائے کہ موبائل فون‘ کمپیوٹر یا دیگر آلات بچوں کی ذاتی ملکیت میں نہیں بلکہ وقتی طور دیئے جائیں‘ اور انکی حفاظتی سیٹنگ اور پروٹوکول سے مکمل واقفیت رکھیں‘ انٹرنیٹ پر موجود غیر معیاری‘ غیر اخلاقی ویب سائٹس کو اپنے اور بچوں کے آلات پر لاک رکھیں اور ان پلیٹ فارمز پر معلوماتی‘دلچسپ اور انٹرایکٹیو مشاغل اور کھیلوں میں بچوں کیساتھ مل جل کر حصہ لیں‘شہرہ آفاق محقق‘ سونیا لیوینگ سٹون کے مطابق ’’اب سوال یہ نہیں رہا کہ نوجوان اور بچے سوشل و ڈیجیٹل میڈیا استعمال کریں یا نہ کریں بلکہ اب مشکل یہ درپیش ہے کہ بچوں کو کیسے‘ کتنی دیر اور کس مقصد کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجیز سے استفادہ کرنا چاہئے؟ دوسری بات: بچوں کی آن لائن موجودگی کو گھنٹوں میں ناپنے کی بجائے‘ ۔

اسکا مقصد‘ معیار‘ ضرورت اور پس منظر سے واقفیت ضروری ہے تاکہ آنیوالے تکنیکی دور کیلئے مستقبل کے معماروں کو تیار کیا جاسکے لیکن ساتھ ساتھ انہیں انٹرنیٹ پر ہونیوالے جرائم‘ شرانگیزی اور خطرات سے آگاہ اور محفوظ رکھنا بھی یکساں ضروری اور پیش نظر رہنا چاہئے‘والدین انٹرنیٹ سے خود کو خواندہ کئے بناء‘ اپنے بچوں کو اِس کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے‘اس تناظر میں برطانیہ اور امریکہ میں ہونیوالی متفرق‘ حالیہ تحقیق کے مطابق‘ اکثر والدین کا اس بات پر اصرار ہے کہ کم سے کم تیرہ اور زیادہ سے زیادہ سولہ سال کے بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کو والدین کی رضامندی اور اجازت سے مشروط کیا جائے تاکہ ’بلیو ویل‘ جیسے مہلک آن لائن گیمز کے ہاتھوں نوجوانوں میں خودکشی اور خود اذیتی کے رجحانات پیدا نہ پائیں‘دلچسپ بات یہ ہے کہ جو والدین انٹرنیٹ پر سرگرم ہوتے ہیں‘ وہ اپنے بچوں میں اسکے بڑھتے استعمال سے زیادہ خائف نظر آتے ہیں اور آن لائن ڈیٹا اور انکی ذاتی معلومات اور نقل و حرکت کے تحفظ کو لاحق خطرات کے حوالے سے بھی اکثر تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں‘ غالباً اسکی ایک بڑی وجہ انکے ذاتی تجربات اور آن لائن پرائیویسی سے جڑے مسائل ہیں‘یوں دیکھا جائے توساری دنیا بشمول یورپ‘ ایشیاء‘ افریقہ‘ آسٹریلیا اور امریکہ میں اس معاملے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے اور ڈیجیٹل دور میں والدین یا سرپرستوں کی نگرانی گوناگوں چیلنجز کا مشاہدہ اور سدباب کرنے کیلئے ریاستی سطح پر ادارے سرگرم نظر آتے ہیں۔ تیسری بات: پاکستان میں کئے گئے سروے کے مطابق انٹرنیٹ پر سات سے سترہ سال کے بچوں کو متعدد بار بدسلوکی‘ نفرت آمیز پیغامات اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اکثر انہیں مایوسی‘ خوف اور عدم تحفظ کا شکار کردیتا ہے تاہم اکثریت اسے آن لائن زندگی کا معمول قرار دیتی ہے اور شاذ و نادر ہی اس حوالے سے کسی رسمی شکایت یاقانونی چارہ جوئی کا سوچتے ہیں‘ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی سائبر کرائمز قوانین اور متعلقہ حکومتی اداروں کی موجودگی سے لاعلم ہیں اور جو واقفیت رکھتے بھی ہیں تو وہ کم معلومات یا سرکاری اداروں کے چال چلن کی وجہ سے اس سے استفادہ کرنے سے خائف رہتے ہیں‘کبوتر کی طر ح آنکھیں بند کرکے حقیقت کا انکار کرنے کی بجائے وقت ہے کہ سائبر بائیکاٹ کیا جائے‘بچوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت اور تربیت کیساتھ والدین کی توجہ چاہئے ہوتی ہے جبکہ اچھا انسان بننے کیلئے ضروری ہے کہ بچہ گردوپیش سے جڑا رہے۔