وفاقی حکومت نئے مالی سال کے بجٹ کا اعلان کرنے جا رہی ہے‘ توقع ہے کہ کم سے کم اس مرتبہ ان تمام شعبوں کو بطور خاص توجہ دی جائے گی‘ جو ماضی میں نظرانداز رہے ہیں اور ایسا ہی ایک شعبہ گھروں کی کمی دور کرنے کا بھی ہے‘ عام آدمی کے لئے سستے گھروں کی فراہمی اور صحت مند معاشرت کی ضروریات اپنی جگہ توجہ طلب ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے ہاؤسنگ کا شعبہ نظرانداز ہونے کی وجہ سے نجی شعبہ گھروں کی کمی دور کرنے کیلئے ہاؤسنگ سکیموں کا اعلان کر رہا ہے‘ جہاں نہ تو بنیادی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور نہ ہی خود رو جھاڑیوں کی طرح اُگنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو بنانے کے وقت جو وعدے کئے جاتے ہیں‘ انہیں پورا کرنا سمجھا جاتا ہے اور پھر حکومت کی جانب سے بناء اجازت نامہ بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے معاملات کنٹرول نہیں کئے جاتے اور نہ ہی متاثرین کی داد رسی کے لئے موجود قواعد و قوانین سے کام لیا جاتا ہے‘ المیہ یہ ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز منظم جرائم کی صورت اِس قدر پھیل گئی ہیں کہ عام آدمی کے لئے پراپرٹی ڈیلرز اور ہاؤسنگ سوساٹیز سے نمٹنا ممکن ہی نہیں رہا۔ زرخیز زرعی اراضی بناء منصوبہ بندی ہاؤسنگ منصوبوں کیلئے استعمال کرنا ایک الگ عمومی رجحان ہے‘ جس جانب توجہ ہونی چاہئے نئے وفاقی بجٹ سے وابستہ توقعات میں جن نظرانداز شعبوں کی جانب حکومتی توجہ بالخصوص مرکوز ہونی چاہئے ان میں ہاؤسنگ ‘اِنٹرنیٹ‘جائیداد کی خرید وفروخت‘صحت عامہ اور مواصلات شامل ہیں کیونکہ ان شعبوں میں وسعت کے امکانات بھی بہت ہیں اور یہ تیزی سے پھیل بھی رہے ہیں۔
تو ضروری ہے کہ ان میں سرمایہ کاری کی جائے۔ ماضی کی طرح موجودہ وفاقی حکومت کا زور بھی سروسز سیکٹر پر ہے‘ جس سے باآسانی ٹیکس وصول ہوتا ہے لیکن اگر ہاؤسنگ کے شعبے کو توجہ دی جائے تو نہ صرف اس کا معیار بہتر ہوگا‘ نئی سرمایہ کاری آئے گی اور عوام کا اعتماد بحال ہونے سے حکومت کا بوجھ بھی کم ہوگا‘فوری ضرورت ہے کہ گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں پر عائد ٹیکسوں کی غیرمعمولی شرح کم کی جائے‘ اس سلسلے میں سٹیٹ بینک کی جانب سے ایف بی آر کو تجویز دی گئی ہے کہ پچاس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے افراد کو چودہ لاکھ روپے تک قرضہ دیا جائے تاکہ وہ اپنے لئے گھر بنا سکے کون نہیں جانتا کہ سر چھپانے کیلئے گھر بنانا ہر شہری کی بنیادی ضرورتوں میں سے شامل ہے لیکن عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنیوالے جب عام انتخابات کے بعد فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں تو انہیں عام آدمی کی مشکلات کا احساس نہیں رہتا اِس تجاہل عارفانہ کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام جنہیں منتخب کرتی ہے ان کا رہن سہن اور ان کی نظر میں عوام کے مسائل کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے بڑے بڑے گھروں میں عالیشان رہائش رکھنے والوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کسی عام آدمی کے لئے سر چھپانے کی چھت کتنی اہمیت رکھتی ہے! کیا ہمارے حکمران حقیقت میں یہ بات جانتے ہیں کہ کم آمدنی والے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنا گھر بنانے سے معذور ہے۔
اگر حکومت ایسے افراد کے لئے کم از کم شرح منافع پر قرضوں کی فراہمی کا کوئی مناسب پروگرام تیار کرے یا گھروں کی خریداری اور تعمیر کیلئے انہیں ٹیکس فری قرضے فراہم کرے یا ایسے قرضوں پر ٹیکسوں کی شرح کم کر دے تو اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے ویسے بھی روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نام پر ہر سیاسی جماعت برسراقتدار آتی ہے اور پھر روٹی کپڑے اور مکان کی فراہمی کو ضروری نہیں سمجھتی‘ اس متعصبانہ رویئے پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہوگا کہ روٹی‘کپڑے اور مکان جیسی تینوں بنیادی ضروریات زندگی کی اَرزاں نرخوں پر فراہمی تاحال عام آدمی کیلئے ممکن نہیں ہو سکی ہے‘ اس وقت تعمیراتی میٹریل کی گرانی عروج پر ہے‘ گھروں کی تعمیر کا کام سفید پوش طبقے کیلئے ناممکن ہو چکا ہے‘اگر حکومت اس کام کیلئے شہریوں کو ٹیکس فری قرضے فراہم کرنے کا بندوبست کر دے تو اس سے بھاری کرائے ادا کرنے پر مجبور وہ لاکھوں شہری نجات پا سکیں گے جو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں‘اس طرح وہ بھی قرضے سے گھر بنا کر کرائے کی رقم کے برابر ماہانہ اقساط ادا کر کے اپنے گھر کی تعمیر کا خواب حقیقت میں بدل سکیں گے‘ سٹیٹ بینک کی طرف سے ایف بی آر کو جو تجویز دی گئی ہے وہ نہایت معقول ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ممکن ہے لیکن فیصلہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کرنا ہے‘ دعا اور امید ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری بجٹ کو غریب دوست بنائے گی۔