926

جب انتخابات نزدیک ہوتے ہیں

ایک مدت سے ہم انتخابات کا تماشا کر رہے ہیں جمہوریت کا ایک ٓئینی تقاضا ہے ( بشرطیکہ آئین معطل نہ ہو چکا ہو) کہ ہر پانچ سال بعد ایک آئینی حکومت کو بذریعہ ووٹ قائم رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے‘ آمریت کے دور میں بھی ایک وقت آتا ہے کہ آمر کو انتخابات کا ڈھونگ رچانا ہی پڑتا ہے‘جونہی انتخابات کا بگل بجتا ہے توکچھ نادیدہ قوتیں متحرک ہو جاتی ہیں اور جس بھی سیاسی پارٹی کو حکومت سے باہر رکھنا ہو اس کیخلاف یہ نادیدہ قوتیں ایک ایسا پروپیگنڈہ شروع کر دیتی ہیں کہ جو بالکل حقیقی لگتا ہے اور آخر کار وہ سیاسی جماعت جسے باہر رکھنا مقصود ہو اسے باہر کر دیا جاتا ہے‘ ابھی تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان میں سوائے ایک آدھ کے ملک کی سب سے جمہوری پارٹی یعنی جماعت اسلامی کو باہر کرنے کے لئے انتخابات سے عین کچھ عرصہ پہلے ایک ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ جس سے عوام اس جماعت سے بد دل ہو جاتے ہیں اور اسے ووٹ نہیں کرتے‘ گو جہاں جہاں جماعت اسلامی کام کر رہی ہے پاکستان بننے کے بعد سے اس کے فلاحی کاموں کا سب اعتراف کرتے ہیں اور جس طرح اس جماعت نے ایک عرصے تک نوجوانوں کو اسلام کیلئے اور فلاحی کاموں کیلئے تیار کیا ہے اس کا اسکے دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں مگر انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے اس جماعت کیخلاف حکومتی مشینری اور نام نہاد سوشل ورکر تنظیمیں متحد ہو جاتی ہیں اور اس کیخلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر دی جاتی ہے اس میں سب سے زیادہ جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے وہ یہ کہ یہ جماعت امریکہ کی پروردہ ہے اور اس سے فنڈ لیتی ہے اور پاکستان کیخلاف کام کرتی ہے‘ ایک پروپیگنڈا کہ یہ جماعت پاکستان کے وجود میں آنے کے ہی خلاف تھی‘ ۔

گو سب جانتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں صرف ایک جماعت یعنی مسلم لیگ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کیلئے کوشاں تھی باقی ساری ہی سیاسی جماعتیں چاہے وہ مذہبی ہوںیاسیکولر ہندوستان کے بٹوارے کیخلاف تھیں‘ کانگرس تو سرحد ی صوبے کے بھی پاکستان میں شمولیت کیخلاف تھی جو ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوا‘مگر انتخابات میں اگر کسی جماعت کیخلاف پاکستان کی مخالفت کا پروپیگنڈا کیا گیاتو وہ جماعت اسلامی تھی ‘جبکہ بانی جماعت نے پاکستان بننے کے بعد اعلان کر دیا تھا کہ اب یہ ملک ایک مسجد کا درجہ رکھتا ہے اور اسکی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے مگر اسکے باوجود اس کیخلاف پاکستان کی مخالفت کا پروپیگنڈا زور و شور سے جاری رہا‘ جماعت اسلامی کا اگر کہیں زیادہ اثر ورسوخ تھا تو وہ کراچی شہر اور حیدر آباد تھا جس کو کاٹنے کیلئے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی اور آمروں کی پوری سپورٹ سے جماعت اسلامی کو کراچی اور حیدر آباد سے نکال باہر کیا گیا‘ اسی طرح ہر مرحلے میں کے پی میں نیپ کیخلاف پاکستان مخالف پروپیگنڈا پوری شدومد سے جاری رہا اور خان عبدالغفار خان صاحب کی زندگی میں اس جماعت کو اس صوبے میں جگہ نہ مل سکی‘خان عبدالقیوم خان کی وفا ت کے بعد مسلم لیگ (جو ابھی ن اور ق میں تقسیم نہیں ہوئی تھی) کے تعاون سے یہ پارٹی بھی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی‘ جس نے پہلا کام یہ کیا کہ صوبے کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھ دیا‘۔

اب اس جماعت کیخلاف پروپیگنڈا تو کم ہو گیا مگر اسکے اقتدار میں آنے کے چانسز کم ہی رہے‘ اب پاکستان کی سب سے بڑی جماعت یعنی مسلم لیگ ن نشانے پرہے‘ جس کیخلاف کرپشن کے مقدمات ہیں ‘ یہ کہاں تک جھوٹ یا سچ ہیں یہ تو ابھی تک کسی جگہ بھی ثابت نہیں ہو سکا مگر پچھلے کوئی ایک سال سے ہماری عدالتیں اور کچھ سیاسی پارٹیاں مسلسل اس جماعت کے پیچھے بالکل اسی طرح پڑی ہیں جیسے ایک وقت میں حکومتیں‘مذہبی جماعتیں اور سیکولر جماعتیں جماعت اسلامی کے پیچھے پڑی تھیں‘ یہاں تک بھی کہ اس کے ممبران کو اپنے نشان پر عدالت نے سینٹ کے الیکشن بھی نہیں لڑنے دیئے‘اور ایک ایسا فیصلہ دیا جو کسی بھی طور انصاف کے تقاضے پورے کرتا دکھائی نہیں دیتا‘تا ہم یہ چونکہ عدالت کا فیصلہ ہے اس لئے ماننا تو پڑا ‘ اب مسلم لیگ ن اور عدالتوں کا آپس میں کچھ ایسا تعلق بنتا جا رہا ہے جو شاید ملک کیلئے اور عدالتی نظام کیلئے بہتر نہ ہو‘ یہ بھی ملک میں پہلی دفعہ ہوا کہ ایک حکمران جماعت کہ جسکی حکومت دو صوبوں اور مرکز میں ہے اسکے نشان پر اسے الیکشن کی اجازت نہیں ملی‘ یہ بھی ہوا کہ الیکشن میں سامنے خرید و فروخت ہوئی ‘ اب جماعتیں لکیر پیٹ رہی ہیں کہ یہ کیسے ہوا مگر جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا‘ سینٹ میں حکمران جماعت کو جس کی اکثریت تھی ہرا دیا گیا‘اب آگے جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آ رہے ہیں اس میں بھی لگتا یہی ہے کہ اس جماعت کو باہر رکھنے کی پوری کوشش ہو گی‘ اسلئے کہ اس سے حساب اس کی حکمرانی کے دوران کا نہیں ہو رہا بلکہ ان سے حساب اس سے بھی بہت پہلے کا ہو رہا ہے‘یعنی جس دور میں نواز شریف اور شہباز شریف ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔