123

میرا قاتل میرا چاہنے والا نکلا

انگریزی زبان کی ایک بہت قدیم کہاوت ہے، جس کا اُردو زبان میں مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ ’’محبت اور نفرت کے درمیان صرف ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے۔‘‘

اس کہاوت کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ محبت کرنے والا ذرا سی بے دھیانی، بے وقوفی اور کسی بدگمانی کے باعث کب نفرت کی حدود میں قدم رکھ دے اور اُس کا دعویٔ محبت کس وقت جذبہ حسد و انتظام سے مغلوب ہوجائے، اس بابت یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے حفیظ جالندھری نے یہ شعر کہا تھا کہ ’’ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔‘‘

 

دوستوں کی دوستی کا دشمنی میں بدل جانا اس لیے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے دوست، زندگی کے سفر میں ہمارے ہم رازورفیق ہوتے ہیں، لہٰذا کسی مقام پر مشترکہ معاشی وسماجی مفادات کا ٹکراؤ ہوجانے کے باعث کسی دوست کا دشمن بن جانا، کسی حد تک عین قرین قیاس بھی لگتا ہے۔ لیکن معاشرے کی مشہورومعروف شخصیات کے مداح اور پرستار اگر اپنے آئیڈیل کی پیروی کرتے کرتے اور اُس کے ساتھ اپنی دلی وابستگی کا دم بھرتے بھرتے اچانک ہی اُن کے ساتھ ایسی نفرت کرنا شروع کردیں کہ اپنے آئیڈل کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرنے کا فیصلہ کرلیں۔ یقیناً ایسے الم ناک واقعے کا رونما ہوجانا کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ زیرنظر میں مضمون میں چند ایسی مشہور و معروف لیکن بدقسمت شخصیات کا احوال پیش ہے، جنہیں ایک دن اُن کے کسی مداح یا پرستار نے ہی موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔

تم میری نہیں تو پھر کسی کی بھی نہیں:

’’ربیکا لوسیل شیفر‘‘ 80 کی دہائی کے آخر میں ایک نوجوان، خوب صورت اور اُبھرتی ہوئی اداکارہ تھی۔ خاص طور پر فلم ’’مائی سسٹر سام‘‘ میں ربیکا نے اپنی کمال اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ وہ راتوں رات لاکھوں دلوں دھڑکن بن گئی۔ ربیکا کے اُن پرستاروں میں ’’رابرٹ جان ہارڈو‘‘ سرفہرست تھا، جسے ’’مائی سسٹر سام‘‘ میں ربیکا کی اداکاری نے اپنا دیوانہ بنادیا تھا۔

رابرٹ نے اپنی پسندیدگی کے اظہار کے لیے ربیکا کو کئی خطوط لکھے۔ اُس کا لکھا گیا ہر خط بہت ہی خوب صورت ہوتا تھا۔ زیادہ تر وہ اپنے خط میں ایک دل اور ربیکا کی تصویر ضرور چسپاں کرتا تھا، جس کے نیچے اس کے دستخط کے ساتھ محبت آمیز یہ عبارت بھی ضرور درج ہوا کرتی تھی ’’ربیکا سے محبت کے ساتھ، ایک پرستار اور مداح۔‘‘ ربیکا کو رابرٹ کے سارے خط ہی ملے لیکن اُس نے کبھی اُس کے خطوں کا جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ رابرٹ کو جب اپنے خطوں کے جواب میں ربیکا کی جانب سے ایک بھی خط موصول نہیں ہوا تو اُس نے ربیکا سے بالمشافہ ملاقات کرنے کی ٹھان لی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ رابرٹ نے فلم اسٹوڈیوز میں ربیکا سے ملنے کی دو بار بھرپور کوشش کی بھی لیکن وہ ہر بار ناکام و نامراد ہی رہا۔ اس دوران ربیکا کی نئی فلم ریلیز ہوگئی، جس میں ربیکا نے فلم کے ہیرو کے ساتھ کئی رومانوی سین فلم بند کروائے تھے۔

ربیکا کو فلم میں ہیرو کے ساتھ رومان کرتے دیکھ کر رابرٹ کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس کا ربیکا سے ملنے کا جنون آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ اَب اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ربیکا سے اُس کے گھر میں ملاقات کرے گا، مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ ربیکا کے گھر کا پتا جانتا ہی نہیں تھا۔ بالآخر اُس نے ربیکا کے گھر کا درست پتا معلوم کرنے کے لیے 250 ڈالر پر ایک نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرلیں۔ جاسوس کام یاب رہا اور یوں رابرٹ کے ہاتھ میں ربیکا کے گھر کا پتا آگیا۔

18 جولائی 1989 کو رابرٹ اپنی پسندیدہ اداکارہ ربیکا کے دروازے پر کھڑا گھنٹی بجارہا تھا۔ دروازہ ربیکا نے ہی کھولا اور رابرٹ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے بتا دیا کہ وہ اُس کا کتنا بڑا پرستار ہے۔ ربیکا نے اُس کی ساری رام لیلا سُن کر بس اتنا جواب دیا کہ ’’اُس کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ وہ کسی پرستار کی جنونی محبت میں اُسے ضائع کرسکے۔‘‘ ربیکا کے جواب نے رابرٹ کو سخت صدمہ پہنچایا اور اُس نے اپنی جیب سے پستول نکال کر کہا کہ ’’اگر تم اپنے پرستار کی نہیں ہوسکتیں تو پھر کسی اور کی بھی نہ ہوسکو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے ربیکا کو اُس کے گھر کے دروازے پر ہی گولی مار دی اور خود موقع واردات سے فرار ہوگیا۔

 

ربیکا فوری طور پر ہلاک ہوگئی، جب کہ رابرٹ کو ایک ماہ بعد گرفتار کرلیا گیا اور عدالت نے اُسے ربیکا کے قتل کے جرم میں عمرقید کی سزا سنادی۔

میچ کیوں ہارا:

ہر ایک جانتا ہے کہ کھیل چاہے کوئی بھی ہو، ہمیشہ جوش و جذبے سے بھرپور ہی ہوتا ہے۔ یعنی کھیلنے والے ہی نہیں بلکہ کھیل کو دیکھنے والی بھی کھیل میں پوری طرح سے منہمک ہوجاتے ہیں اور اپنی پسندیدہ ٹیم کی ہارجیت کو خود اپنی ہارجیت سے تعبیر کرلیتے ہیں۔ کھیلوں کے شائقین کا یہ جنون کبھی کبھار کھلاڑیوں کے لیے باعثِ آزار بھی بن جاتاہے۔ لیکن کولمبیا کے فٹ بال ٹیم کے کپتان اور ڈیفنڈر ’’اینڈرس ایسکو بار ‘‘ کے لیے یہ جذبہ اور جنون جان لیوا ثابت ہوا۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ سوکر ورلڈ کپ کے دوران کولمبیا اور امریکا کے درمیان ایک بہت اہم ترین میچ جاری تھا۔ کولمبین شائقین کی نظریں اپنی ٹیم کے کپتان ’’اینڈرس ایسکوبار‘‘ پر جمی ہوئی تھی۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اینڈرس یہ میچ بہ آسانی کولمبیا کو جتوا سکتا ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ میچ کے دوران ایک موقع ایسا آیا جب اینڈرس اپنے گول پر مخالف ٹیم کی جانب سے ہونے والے جارحانہ حملے کو روکنے کی کوشش کررہا تھا کہ غلطی سے اس نے فٹ بال اپنے ہی گول میں پھینک دی، جس کی وجہ سے کولمبیا کی سوکر ٹیم کو امریکی ٹیم کے ہاتھوں ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست ہوگئی اور کولمبیا ورلڈکپ سے باہر ہوگیا۔

کولمبیا کے عوام اور میڈیا نے سوکر ٹیم کی ہار کا سارا ملبہ ’’اینڈرس ایسکوبار ‘‘ پر ڈال دیا۔ اینڈرس نے میڈیا پر آکر کہا کہ ’’یہ ایک انسانی غلطی تھی۔ میں نے فٹ بال جان بوجھ کر اپنے گول میں نہیں پھینکی تھی اور میں اپنی ناقابلِ تلافی غلطی پر تہہ دل کے ساتھ پوری قوم سے معافی بھی مانگتا ہوں۔‘‘

کولمبیا سوکر ٹیم کی وطن واپسی کے ٹھیک چھے روز بعد 2 جولائی 1994 کی ایک صبح اینڈرس کو چھے گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اینڈرس کے قتل کے شبے میں ’’ہمبرٹو منوز‘‘ نامی ایک شخص کو گرفتار کرلیا۔ بعدازتفتیش انکشاف ہوا کہ ’’ہمبر ٹومنوز‘‘ اینڈرس کا زبردست پرستار تھا اور اُس نے اینڈرس کی کارکردگی پر جوئے خانے میں بڑی رقم کی شرط بھی لگائی تھی، لیکن چوںکہ اینڈرس میچ میں حسب توقع کارکردگی نہیں دکھا سکا تھا، تو اُس کا پرستار شرط ہار گیا۔ ’’ہمبرٹومنوز‘‘ نے شرط ہارتے ہی قسم کھالی تھی کہ وہ اینڈرس کو موقع پاتے ہی قتل کردے گا۔ میچ کے دسویں روز اُسے یہ موقع میسر آگیا اور اُس نے اپنے ہیرو کو ہلاک کردیا۔

’’ہمبر ٹومنوز ‘‘کو عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 42 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اس سزا کے خلاف اُس کے وکیل نے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی، جہاں اُس کی سزا کو 11 سال قید میں بدل دیا گیا۔ ہمبرٹومنوز اپنی مقررہ قید پوری کرکے رہائی حاصل کرچکا ہے، جب کہ دنیا بھر کے فٹ بال شائقین آج بھی’’اینڈرس ایسکوبار‘‘ کی الم ناک موت کا تذکرہ سنتے ہیں تو دُکھی ہوجاتے ہیں۔

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا:

جیسی جیمز کہنے کو تو ایک ڈاکو تھا، لیکن جیسا کہ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ’’پھولن دیوی‘‘ کو ایک ڈاکو ہوتے ہوئے بھی فقیدالمثال عوامی مقبولیت اور شہر ت حاصل ہوگئی تھی، کچھ ایسی ہی غیرمعمولی شہرت ایک زمانے میں’’جیسی جیمز‘‘ کو امریکا میں حاصل تھی۔

جیسی جیمز نے ’’جیمز کنفیڈریٹ‘‘ کے نام سے امریکا بھر میں ڈکیتی کے لیے ایک مسلح گروہ بنایا ہوا تھا، جو عام اور غریب امریکیوں میں ’’جیمز گروپ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جیسی کی ڈکیتیوں کو امریکی عوام کی جانب سے مہم جوئی اور کارناموں کو اساطیری داستانوں میں بدل کر نجی محفلوں میں ان کا ایسے تذکرہ کیا جاتا تھا جیسے وہ کوئی ’’رابن ہوڈ‘‘ ہو۔ دراصل جیسی جیمز امیروں کے ہاں چوری کرتا تھا اور لوٹی ہوئی دولت کا کچھ حصہ غریبوں میں تقسیم کردیا کرتا تھا۔ جیسی جیمز کے اس طرزعمل نے اسے امریکی عوام میں ’’ہیرو‘‘ بنادیا تھا۔ ایک ایسا ہیرو جس کے گُن گاتے ہوئے عام لوگ تھکتے نہ تھے۔

جیسی جیمز کے جاں نثار پرستاروں میں رابرٹ فورڈ بھی شامل تھا، جس کے نزدیک جیسی جیمز ایک دیوتا کی مانند تھا اور وہ اپنے دیوتا کے ’’جیمزگینگ‘‘ میں شامل ہونے کا خواب جاگتی آنکھوں سے صبح و شام دیکھا کرتا تھا۔ رابرٹ فورڈ کو اُس وقت اپنے خواب کی تعبیر مل گئی جب اُسے معلوم ہوا کہ جیسی جیمز کو اپنے گینگ کی افرادی قوت کو بڑھانے کے لیے نئی بھرتی کی ضرورت ہے۔ رابرٹ اور اس کا بھائی چارلس بھرتی کے خواہش مند بن کر جیسی جیمز کے سامنے حاضر ہوگئے اور ان دونوں بھائیوں کی اپنے ساتھ والہانہ محبت اور اندھی عقیدت سے جیسی جیمز بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے دونوں بھائیوں کو اپنے گروہ میں شامل کرلیا۔

حیران کن طور رابرٹ فورڈ کو اپنے آئیڈیل جیسی جیمز کے ساتھ صرف ایک ٹرین ڈکیتی میں حصہ لینے کا موقع میسر آیا۔ ڈکیتی کام یاب رہی لیکن عین آخری موقع پر رابرٹ نے جیسی جیمز کے دور کے رشتہ دار اور گینگ کے انتہائی اہم رکن ’’کزن وڈ ہیٹ‘‘ کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ چوںکہ رابرٹ گینگ میں صرف چوری چکاری اور راہ زنی کی نیت سے شامل ہوا تھا، لہٰذا اپنے ہاتھوں ہونے والے قتل سے وہ اتنا گھبرا گیا کہ موقع واردات سے بروقت فرار نہ ہوسکا اور حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ حکام نے جب پوچھ گچھ کی تو اس نے اُگل دیا کہ وہ ’’جیمز گینگ‘‘ کا اہم ترین رکن ہے اور حال ہی میں اس کے گروہ میں شامل ہوا ہے، جب کہ جیسی جیمز اس پر اعتبار بھی بہت کرتا ہے۔

بعدازآں حکام نے جیسی جیمز کو گرفتار کروانے کے لیے رابرٹ فورڈ کو ایک خصوصی معاہدے کی پیش کش کی جس کے مطابق اگر وہ جیسی جیمز کو گرفتار کروا دیتا ہے تو اُسے عام معافی کے ساتھ ایک لاکھ ڈالر کی کی کی خطیر رقم بطور انعام بھی دے دی جائے گی۔ حکام کی پیشکش کو رابرٹ نے قبول کرلیا، جس کے بعد اُسے رہائی حاصل ہوگئی اور ایک بار پھر سے وہ جیسی جیمز کے گروہ میں حکام کا جاسوس بن کر شامل ہوگیا۔

3 اپریل 1882کو جیسی جیمز اپنی پناہ گاہ میں ناشتہ کررہا تھا کہ رابرٹ کی مخبری پر حکام نے دھاوا بول دیا۔ جیسی جیمز چوںکہ رابرٹ کی محبت پر حددرجہ اعتبار کرتا تھا، لہٰذا اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو حکام سے مقابلہ کرنے کے لیے باہر بھیج دیا جب کہ خود رابرٹ کے ساتھ ایک کمرے میں محدود ہوگیا۔ جب رابرٹ فورڈ کو احساس ہوا کہ حکام، جیسی جیمز کو زندہ گرفتار بھی کرسکتے ہیں تو اس نے حکام کے ساتھ طے پاجانے والے معاہدے کو خفیہ رکھنے کے لیے عین اُس لمحے جیسی جیمز کی پیٹھ میں اپنی پستول سے گولی مار کر اسے ہلاک کردیا کہ جس وقت وہ دیوار پر آویزاں ایک ٹیڑھی تصویر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

جیسی جیمز فقط 34 برس کا تھا ،جب اُس کے پرستار نے اُسے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ حکام نے معاہدے کے مطابق رابرٹ فورڈ اور اس کے بھائی کو معافی دے کر رہا کردیا، جب کہ اُسے انعامی رقم کا صرف پانچ فی صد حصہ ہی دیا گیا، کیوںکہ اُس نے جیسی جیمز کو زندہ گرفتار نہیں کروایا تھا۔

رابرٹ فورڈ نے جیسی جیمز کے قاتل کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی بہت کوشش کی لیکن اردگرد کے لوگ اور خود اُس کا اپنا ضمیر بھی اُسے لعنت ملامت کرتا رہا۔ رابرٹ کے بھائی چارلس فورڈ نے 1884 میں خودکشی کرلی جب کہ 8 جون 1892 کو رابرٹ فورڈ کو ’’ایڈورڈ اوکے کلی‘‘ نامی شخص نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ رابرٹ فورڈ کو ہلاک کرنے والا بھی جیسی جیمز کا مداح اور پرستار تھا۔

اعتبار کی موت:

سیلینا کوئینٹینلا پیریز ایک امریکی و میکسیکن گلوکارہ نغمہ نگار، اداکارہ، ماڈل اور معروف فیشن ڈیزائنر تھی۔ بدقسمتی سے سیلینا کو اُس کی 24 ویں سال گرہ سے ٹھیک دو ہفتے قبل اس کے ایک مداح نے بے دردی سے ہلاک کردیا۔

سیلینا میکسیکو میں امریکی میڈونا کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھی، جب کہ امریکا میں اُسے میکسیکن بیوٹی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سیلینا اُن گنی چنی شوبز شخصیات میں سے ایک تھی جنہیں میکسیکو اور امریکا میں برابر مقبولیت حاصل تھی جب کہ عالمی سطح پر اُس کے فن کا اعتراف برابر کیا جاتا تھا۔ نیز اُس کا پہلا انگلش میوزک البم عالمی ریلیز کے لیے تیاری کے آخری مراحل میں تھا۔ علاوہ ازیں میکسیکو میں وہ اپنا ایک بوتیک بھی چلاتی تھی، جہاں فروخت کے لیے تمام  ملبوسات سیلینا اپنی نگرانی میں تیار کرواتی تھی۔

سیلینا کی انہی بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے اظہار نے اُس کے بے شمار مداح اور پرستار بھی پیدا کردیئے تھے۔ اُس پر دل و جان سے فدا ہونے والی ایک پرستار خاتون ’’یولانڈ اسلدیور‘‘ بھی تھی، جسے سیلینا خود بھی اپنی سب سے بڑی مداح قرار دیتی تھی اور اکثر نجی محفلوں میں وہ اپنی مداح کی جانب سے اُس کے ساتھ روا رکھی جانے والی والہانہ وارفتگی کے قصے بھی سنایا کرتی تھی۔ ’’یولانڈ اسلدیور‘‘ نے سیلینا فین کلب بھی بنایا ہوا تھا جب کہ وہ سیلینا کے ذاتی بوتیک کا انتظام و انصرام بھی خوب سنبھالتی تھی۔

سیلینا کے اندھے اعتماد اور اعتبار نے اُس کی مداح کو بددیانتی پر اکسایا اور اس نے بوتیک سے قیمتی ملبوسات کی چوری اور رقم میں ہیرا پھیری بھی شروع کردی۔ ابتدا میں تو سیلینا نے اپنی پرستار کی اس حرکت کو نظرانداز کیا لیکن جب بوتیک میں وارداتوں اور ہیراپھیری کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا تو آخر ایک روز غصے میں آکر اُس نے یولانڈا کو ملازمت سے فارغ کردیا۔

یولانڈا جاتے جاتے بوتیک کی تجوری سے سیلینا کی اہم ترین دستاویزات بھی چرا کر چلتی بنی۔ یہ دستاویزات سیلینا کے لیے ازحد اہم اور ضروری تھیں۔ اُس نے اپنی دستاویزات کی واپسی کے لیے یولانڈا سے رابطہ کیا، جس کے جواب میں وہ ٹیکساس کے کورپس کرسٹی کے ایک ہوٹل میں سیلینا کے ساتھ ملنے پر راضی ہوگئی، مگر ہوٹل میں یولینڈا نے سیلینا کو دستاویزات دینے کے بجائے گولی مار دی۔

ہوٹل میں موجود افراد نے سیلینا کو فوری طور پر قریبی میموریل میڈیکل سینٹر منتقل کردیا، جہاں ایک گھنٹے بعد سیلینا کی موت کی تصدیق کردی گئی۔ یولینڈا کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور مقامی عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنادی۔