پشاور۔ ضلع صوابی میں سسرالیوں کی جانب نوبیا ہتا دلہن کا قتل معمہ بن گیا مقتولہ کے والد نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ٗ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس نے قتل کی ازسرنو تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مقتولہ کے والد ریاض خان نے کہا کہ اسکی بڑی بیٹی امن کی شادی محسن رحمن سے تین سال قبل ہوئی تھی جس کے اڑھائی سال بعد محسن رحمن کے بھائی شہباز سے دوسری بیٹی زوحہ کی شادی ہوئی شادی کے کچھ عرصہ بعد شہباز امریکہ چلا گیا۔
جہاں سے وہ فون کے ذریعے اپنی اہلیہ سے باتیں کرتا تھا اور اسے اُمید دلائی کہ وہ بہت جلد اسے امریکہ بلائے گا جس کا زوحاحہ کی ساس کو رنج تھا 5 جولائی کو جب زوحہ کی موت واقعہ ہوئی تو بڑی بیٹی نے مجھے بتایا کہ وقوعہ کے روز وہ معمول سے ہٹ کر صبح 10 بجے جاگی تھی اور جاگنے کے بعد نہ صرف اس کا سر چکرا رہا تھا اس کا بیٹا بھی اس کے ساتھ نہیں تھا جو باہر آنے پر معلوم ہوا کہ وہ دادی کے پاس بیٹھا تھاساس نے پوچھنے پر بتایا کہ اِسے دودھ وغیرہ پلا دیا ہے تم گھر کے دیگر کام کاج کروں۔
اِس دوران جب اس نے زوحہ کے بارے میں پوچھا تو ساس نے اسے اوپر جانے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ پہلے نیچے کام وغیرہ ختم کرلو پھر اس کے پاس جاؤکام کاج ختم کرنے کے بعد امن اوپر گئی تو زوحہ اپنے شوہر کے ساتھ موبائل فون پر باتیں کررہی تھی اور اسی دوران اس نے پیٹ میں شدید درد محسوس ہوا ساس اور نہ ہی دیور محسن رحمن نے اسے ہسپتال لے جانے کی زحمت کی بلکہ اس واقعے کو زوحہ کا مکر قرار دے رہے تھے۔
تاہم دن بھر تکلیف میں رہنے کے بعد رات 8 بجے اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے پھر 10بجکر 35 منٹ پر ذوحہ کی موت کی اطلا ع ملی ریاض خان نے بتایا کہ میری بڑی بیٹی امن نے اپنا بیان قلمبند کرادیا ہے جس میں اس نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ وقوعہ کے روز اس کا دیر سے جاگنا اور پھر جاگ کر سر کے چکرانے سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے بھی کھانے میں کچھ خواب آور چیز دی گئی تھی۔
مقتولہ زوحا کے والد کے مطابق وقوعہ کے روز تفتیشی آفیسر نے جب زوحہ کے کمرے کا دورہ کیا تو اسے وہاں سے کچھ بھی نہیں ملا تھا تاہم جب پوسٹ مارٹم رپورٹ موصول ہوئی تو اس نے دوبارہ جائے وقوعہ کا دورہ کیا جہاں زوحہ کی ساس نے اسے زہر کی ایک پڑیا فراہم کی کہ یہ زوحا کے کمرے سے برآمد ہوئی ہے اور اس نے خودکشی کی ہے لیکن یہ سب جھوٹ ہے بلکہ وہ کیس پر اثر انداز ہونے کیلئے پیسوں کا استعمال کررہے ہیں اور کیس میں گرفتار دو ملزمان محسن رحمن اور اُس کے ماموں عبد الرحیم کو چھڑانے کیلئے کیس کو کمزور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے وزیراعلیٰ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، آئی جی پولیس اور ڈی پی او صوابی سے مطالبہ کیا کہ کیس کی شفاف تحقیقات کی جائے کیونکہ اُس کی بیٹی کے ساتھ ظلم ہوا ہے جس کا مداوا ملزمان کو سزاء ہونے کی صورت میں ہی ہوسکے گادوسری جانب مقتولہ زوحا کی بہن امن نے بیان قلمبند کرنے کے دوران یہ بھی بتایا کہ جب زوحا کو ہسپتال لے جایا جارہا تھا تو ساس نے نہ صرف اس کے بلکہ میرے ہاتھوں سے بھی طلائی چوڑیاں اور کانوں سے بالیاں نکال لیں۔