اسلام آباد میں 10 سال کی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے اور اس لاش جنگل میں پھینکنے کے خلاف لواحقین نے شدید احتجاج کیا۔
خاندانی ذرائع کے مطابق 15 مئی کو لاپتہ ہونے والی خیبرپختون خوا کے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ بچی اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھی لیکن پولیس نے گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے میں 4 دن لگائے۔
دس سال کی بچی فرشتہ کی لاش گزشتہ روز جنگل سے ملی جسے پوسٹ مارٹم کےلیے پولی کلینک اسپتال منتقل کیا گیا تاہم بروقت پوسٹ مارٹم بھی نہ کیا گیا۔
مبینہ زیادتی اور قتل کے خلاف مقتول بچی کے لواحقین لاش ترامڑی چوک پر رکھ کر احتجاج کیا اور الزام عائد کیا کہ بچی سے زیادتی اور قتل کی ذمہ دار پولیس ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ پولیس نے 5 دن تک بچی کو مرضی سے فرار ہونے کا الزام لگا کر رپورٹ درج نہیں کی۔
مقتولہ کے بھائی کا کہنا ہے کہ گمشدگی کی رپورٹ تھانے میں درج کروانے گئے تو ہم سے تھانے میں کام لیا جاتا تھا، ایس ایچ او اور تھانے کا مکمل عملہ معطل ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔
ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید نے ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاؤن کو معطل کرکے انکوائری ایس پی رورل عمر خان کے سپرد کر دی اور انہیں فوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق بچی کے قاتل کا سراغ لگا لیا ہے،جلد کامیابی مل جائے گی جب کہ ایس ایچ او کومعطل کرنے کا مقصد شفاف انکوائری کرانا ہے۔