لاہور: خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ جنسی زیادتی کے کیسز سب سے زیادہ پنجاب میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ملک بھر میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے جانے سمیت خواتین کے قتل، اغوا سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا۔ ملک بھر میں 7,010 کیسز میں سے 6,624 کیسز پنجاب میں رونما ہوئے۔
اسی طرح سندھ میں خواتین کے اغوا کے سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے،جن کی تعداد 1,666 رہی۔ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کےرپورٹ کیے گئے کیسز میں سندھ پہلے نمبر پر رہا، جس کے 258 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے تقریباً نصف ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے متاثرہ خواتین اور ان کے لواحقین کو تحفظ ،سرپرستی اور یقینی انصاف فراہم کرکے سنگین نوعیت کے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے بتایا کہ یہ رپورٹ صوبائی پولیس محکموں میں درج درخواستوں سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار پر مشتمل ہے۔ جو 2023 کے دوران پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رپورٹ ہونے والے جی بی وی کیسز کا تجزیہ کرتی ہے۔ اگرچہ صوبائی پولیس کی جانب سے رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم مزید ہزاروں واقعات کے غیر دستاویزی ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں عصمت دری، اغوا اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا، ملک بھر میں 7,010 کیسز میں سے 6,624 کیسز پنجاب میں رونما ہوئے،جس کا شرح تناسب 94.5 فیصد رہا،جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں عصمت دری کے زیادہ تر واقعات پنجاب میں رونما ہوئے۔ دوسری جانب سندھ میں 188، خیبر پختونخوا میں 187، اور بلوچستان میں عصمت دری کے11 واقعات رپورٹ ہوئے۔
خواتین کے اغوا کیسز سب سے زیادہ سندھ میں رپورٹ ہوئے،جہاں 1,666 خواتین کو اغوا کیا گیا جو کہ ملک بھر میں ہونے والے کل اغوا کا 56.4 فیصد ہے۔جب کہ پنجاب میں 562 کیسز، بلوچستان میں 163 اور خیبرپختونخوا میں 36 کیسز رپورٹ ہوئے۔
سید کوثر عباس نے بتایا کہ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل خواتین کے عدم تحفظ کے شدید فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ صوبے میں 258 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے تقریباً نصف ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 129، پنجاب میں 120 اور بلوچستان میں 26 کیسز رپورٹ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں وسیع تفاوت اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ سندھ، خیبر پختونخوا یا بلوچستان جیسے علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کم پایا جاتا ہے بلکہ یہ سماجی بدنامی، خوف، اور خاندان والوں کی عدم سرپرستی کی بنا پر رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی نشاندہی کرتا ہے۔
سید کوثر عباس کا مزید کہنا تھا کہ یہ رپورٹ صوبوں میں صنفی بنیاد پر کیے گئے تشدد کےتاریک پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ایس ایس ڈی او کی یہ رپورٹ صنفی بنیاد پر تشدد (GBV) کے کیسز کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مرکزی قومی ڈیٹا بیس سیل قائم کرنے کی سفارش کرتی ہے، جو ایک عوامی ویب سائٹ اور موبائل ایپ کے ذریعے قابل رسائی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان حساس نوعیت کے کیسز کو سنجیدگی سے لیا جائے،جس کے لیے پولیس کو خصوصی تربیت دی جائے،بروقت مقدمات کا اندراج کیا جائے اور صاف و شفاف محکمانہ کارروائی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں مختلف مکاتب فکر سے وابستہ افراد کو متحرک ہونا چاہیے جب کہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں میں رونما ہونے والے کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے ایک منظم نظام کی ضرورت ہے،تاکہ متاثرہ خواتین کے لواحقین قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بنا کسی خوف و ڈر کے انصاف کے حصول کے لیے رابطے کر سکیں۔
سید کوثر عباس نے صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق مقدمات کے اندراج میں اضافے پر صوبائی پولیس کی تعریف کی لیکن اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ہزاروں مقدمات اب بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو ان مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کی شفافیت کو بہتر بنانے کی اہمیت پر مزید زور دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ قابل رسائی اعدادوشمار رپورٹ شدہ اور غیر رپورٹ شدہ کیسز کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد کرے گا اور قانون بنانے والے اداروں کو فیصلے کرنے میں مدد دے گا۔