45

وہ نکالا گیا تھا ، شکست نہیں ھوئی۔

 نکالا گیا ہے لیکن شکت نہیں دے سکے" یہ روسی اخبار کی ھیڈ لائن ھے جو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی اور عوامی ردعمل پر, ousted but not defeated,کے عنوان سے چھپی 9 اپریل عمران خان کے لئے مشکل دن تھا مگر وہ پریشان نہیں تھا کیونکہ عوام ازخود ردعمل دے رہے تھے ، جس سے ہر سیاسی جماعت ، طاقت ور حلقے، اور مخالفین محو حیرت تھے کہ ایسا میاں نواز شریف کے وقت کیوں نہیں ھوا؟ یا گیلانی صاحب کے جاتے وقت کیوں نہیں ھوا ؟ یہی وہ کردار ہے جسے باقی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جاننے کی ضرورت ہے ، سول بالادستی ماضی میں نعرہ ضرور رہا مگر کوئی لیڈر اس کے لیے استقامت سے کھڑا نہیں ہو سکا ، میرا بھی یہی خیال تھا کہ عمران خان بھی شاید کھڑا نہ ہو سکے ، مگر بھلا ھو میرے دوست ، " عمران باجوہ" کا اس کا کہنا تھا کہ ایک دن آئے گا سول بالادستی کی جنگ بھی عمران خان ہی لڑے گا ، وہ اس نے بڑی ہی حکمت عملی سے لڑی ، یہ واضح ھے کہ عمران خان نہ امریکہ مخالف ہے اور نہ ہی فوج کے خلاف ، بلکہ اس سوچ کے خلاف ھے جو غلامی ،ذ اور خوف کو پروان چڑھاتی ھے ، اس سے پہلے صرف ذوالفقار علی بھٹو نے اس سول بالادستی یا آزادی کے لیے جان تک کی بازی لگائی مگر بعد میں کوئی استقامت سے اس نظریے اور سیاسی حکمت عملی کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا ، مفاہمت ، دولت ، اقتدار ، اور طاقت کے حصول کے لیے سب کچھ کیا گیا مگر اس ایک کردار کے لیے جوانمردی نہیں دکھائی گئی ، 
  عمران خان نے یہ سفر صرف تین ماہ میں مکمل کر لیا آئندہ جو کچھ بھی ہو ، عمران خان جاتے ہیں یا آتے ہیں مگر ایک جست میں وہ قوم کو آزادی ، بےخوفی اور استقامت کا درس دے گیا ، جو بیس لوگ اسے چھوڑ کر چلے گئے ، جو اتحادی وقتی مفاد کے لیے قربان ھو گئے آج وہ پشیمان ہیں ، پنجاب بھر میں ضمنی انتخابات کا ایک ہی ٹریلر ، سپر ہٹ ھوگیا ، عمران خان نے یہ جنگ تنہا لڑی ، اور ضمنی انتخابات کی تاریخ ہی بدل ڈالی ، کراچی کی ایک سیٹ پر ضمنی انتخاب ھوا تحریک انصاف اس میں حصہ دار نہیں تھی اور ٹرن آؤٹ صرف آٹھ فیصد رہا مگر پنجاب کی بیس نشستوں پر انتخابات ہوئے اور 17 جولائی کو ووٹر اتنے نکلے کہ پہلی مرتبہ ضمنی انتخاب کا ٹرن آؤٹ پچاس  فیصد سے زائد رہا ، یہی تبدیلی اتنی بڑی تھی کہ گیارہ جماعتی اتحاد ، گیارہ نشستیں بھی نہیں جیت سکا ، مجھے یاد ہے جولائی 2018 ء میں عمران خان نے وکٹری سپیچ میں بڑے تحمل اور برداشت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تھا مگر وزیراعظم کے انتخابات کے وقت  کسی نے اسمبلی تسلیم نہیں کی ، کسی نے وزیراعظم کو سلیکیڈڈ کا نام دیا اور اسی شور میں عمران خان نے لنگوٹ کس لیا تھا ، کیا اس کے بعد اخلاقیات کا درس دینا بنتا تھا ؟
   عمران خان نے نسبتاً کمزور سیاسی وکٹ پر کھڑے ھو کر معیشت اور معاشرت کو آزاد کیا ، وہ کیا آزادی تھی ؟، ایک پیدوار تقریباً ہر شعبے میں بڑھائی ، برآمدات کا ہدف حاصل کیا ، یہ سروے خود نئی حکومت نے جاری کیا ہے ، محصولات کا نہ صرف ھدف حاصل کیا بلکہ ھدف سے زائد وصولی کی ، 595 ارب روپے تو لوٹی گئی رقم سے حاصل کیا ، خارجہ محاذ پر بطور مسلم حکمران اسلامی شناخت ، کشمیر پر جان دار موقف اختیار کیا اور آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد ڈالی ، اور معاشرت میں یہ بات فکس کی کہ کرپشن ایک سماجی برائی ھے ، کیا یہ تبدیلی اور آزادی نہیں تھی ، ؟ صرف جُزوی مہنگائی وہ واحد کام تھا جس پر لوگ نالاں تھے مگر ان کا خیال یہی تھا کہ یہ مہنگائی بھی عمران خان دور کرے گا ، یہ اعتماد اور کردار تھا ، بیانیہ نہیں ،حالانکہ کورونا جیسی خطرناک وبا ، عالمی کساد بازاری ، اور مہنگائی عروج پر تھی مگر پاکستان میں کوئی بھوکا اور شدید مشکل میں نہیں تھا ، ساڑھے تین سال میں اس نے مہنگائی پر بھی قابو پا لیا تھا ، ترقی کی شرح چھ فیصد تک پہنچ گئی تھی ، برآمدات 45فیصد تک بڑھ چکی تھیں اس سے بہتر کیا ھو سکتا تھا جب ملک توانائی کے خطرناک ترین معاہدوں اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ھو ؟اب آتے ہیں ضمنی انتخابات کی طرف ، 
   17 جولائی کا معرکہ اس نے حقیقی آزادی کے لیے لڑا ، یہ کہا جائے کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے تو یہ بھی بالکل غلط ہے ، کیوں کہ عمران خان یہ الیکشن ، الیکشن کمیشن ، انتظامیہ ، حکومت ، بڑے بڑے افلاطونی دانشوروں اور مافیاز کے خلاف بھی لڑ رہا تھا ، دھاندلی کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا ، عمران خان کا ایک ہی کمال تھا کہ وہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ضمنی انتخابات میں لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب رہا ، دوسرا یہ انتخاب لوٹوں کے خلاف لڑا ، اور تیسرا پہلے دن سے الیکشن ڈے تک اس کی حکمت عملی کامیاب رہی ، میں نے فیلڈ میں جاکر بھی مشاہدہ کیا سب سے بڑی تعداد خواتین کی نکل کر سامنے آئی اور دوسرے نمبر پر نوجوان اور تیسرے نمبر  وہ لوگ تھے جو کبھی ۔مفادات کے لیے مخمصے کا شکار رہتے تھے ، یہ تینوں طبقات نے تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں کامیابی کا باعث بنے ، پی ڈی ایم نے کیا کیا ، نیب کو کمزور ، مقدمات میں ریلیف ، ای وی ایم مشین اور اورسیز ووٹنگ کا خاتمہ برائے این آر او ، اسمیں کچھ لوگ فائدے میں رہے ان پیپلز پارٹی یا زرداری صاحب کی حکمت عملی نے فائدہ اٹھایا ، ن لیگ نے مقدمات کی حد تک ریلیف پایا ، سب سے نقصان میں ایم کیو ایم ،اور شخصیات میں جہانگیر ترین ، علیم خان ، اور چوھدری سرور جیسے لوگوں کو شدید نقصان پہنچا ، ان کو ، لوٹوں کو ، اور اتحادیوں کو آخری وقت تک عمران خان نے آوازیں دیں ، آجاؤ کچھ نہیں کہا جائے گا ، مگر ھائے وقتی مفاد ، جیت گیا تھا ، مگر عمران خان کا وقت تھا ، وقت جیت گیا ، وہ بھی چار کے مقابلے میں پندرہ نشستوں سے کامیابی حاصل کی ، راستہ آگے ایک ہی ہے اور وہ ہیں انتخابات البتہ چیلنجز بہت ہیں جن میں سر فہرست معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈالنا ، روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد ایندھن ، توانائی اور خوراک کے عالمی مسائل جنم لے  چکے ہیں ، جس کے لیے متبادل حل تلاش کرنا ہے ، اپنے وسائل ، ذخائر اور مصنوعات پر انحصار کرنے کی حکمت عملی بنانی ہے ، مسلم لیگ ن نے اچھا کیا کہ شکست تسلیم کر لی ، یہی وقت ہے کہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے سیاسی اور معاشی فیصلے جلد کیے جائیں ، دیر ھوتی رہی تو نقصان پاکستان اور عوام کا ھوگا ، ذاتی اناء اور خواہشات سے بالاتر تر ہو کر فیصلے کرنے ھوں گے ، سماج میں تقسیم اور ہیجان کم کرنے کے لیے سیاسی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ، ھماری کسی سے نہ دوستی ھے نا دشمنی ایک لکیر عمران خان نے کھینچ دی ہے ، اس کو تسلیم کیا جائے اور برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے گا تو نیا عزم ، نئی قیادت اور معاشی انصاف آئے گا ، بیانیہ نہیں کردار بنائیں لوگ آپ کے ساتھ ھوں گے ، وہ عمران خان ھو ، مریم ھوں یا بلاول بھٹو ، البتہ ھمزہ شہباز اور شہباز شریف کے لئے خود اپنی پارٹی میں بھی جگہ بنانا مشکل ہو گا ، صاف اور شفاف انتخابات کے لئے اداروں کا تعاون حاصل کیا جائے اور کسی شک شبے سے بالا تر ہو کر قوم کی رہنمائی کی جائے ،  البتہ عمران خان نے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ وہ نکالا گیا ہے لیکن اسے شکست نہیں ھوئی ،