72

اْٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

پشاور کے تاریخی چوک یادگار کے چاروں طرف اب بھیڑ بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے ہمہ وقت ایک ہنگامہ سا بپا رہتا ہے۔ بارونق تو یہ چوک ہمیشہ سے رہا ہے مگر اس رونق میں ایک ٹھہراؤ اور سکون سا تھا۔ اور اس چوک کے شمال مغرب کی جانب ایک ترتیب سے دکانیں تھیں اور ان کے سامنے خاصا کھلا میدان تھا جو گھنے درختوں کے سائے سے بھر ا رہتا تھا۔ بالخصوص موسم گرما میں یہ علاقہ بہت معتدل اور ٹھنڈا رہتا تھا اس میدان کے مشرق میں بھی دائیں طرف مسجد تھی اور بائیں جانب دو چار دکانیں تھیں ان میں سب سے بڑی دکان حاجی کرم الٰہی کی تھی ان کا چائے کی پتی کا وسیع کاروبار تھا ان سے ہمارے مراسم تھے کیونکہ وہ میرے چچا الحاج سید نور بادشاہ مرحوم کے دوست تھے پشاور آنے سے پہلے میں بھی ان کے گھر آ چکا تھا، تب ان کے ایک میری عمر کے بیٹے سے میری دوستی ہو گئی ٗمیں کچھ دن پشاور رہ کر واپس گاؤں چلا گیااس وقت میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا،دوستی کی وجہ ان کی بیٹھک کی الماری میں بچوں کے معروف رسالے ”تعلیم و تربیت“ کے کئی شمارے تھے جو ترتیب سے رکھے ہوئے تھے اور یہ میرا بھی پسندیدہ رسالہ تھا جو ہر ماہ میرے لئے پشاور برادر اکبر سید پیر محمد شاہ لایا کرتے تھے، مگر پڑھنے کے بعد  میر ا کوئی دوست لے جاتا اور اس سے کوئی اور دوست اور پھر کبھی میرے پاس نہیں آتا تھا۔ یہی عادت بچپن سے میرے ساتھ پلتی بڑھتی رہی اور اب بھی کتاب پڑھنے کے بعدکسی کو گفٹ کر دیتا ہوں، چوک یادگار میں جس مسجد کی میں نے بات کی اس کے نیچے کی دو چار دکانوں میں سٹیشنری اور بجلی کے سامان کی دکان (غوثیہ الیکٹرک سٹور) کے علاوہ افضل نیوز ایجنسی بھی تھی جن کا بک سٹال میری پسندیدہ جگہ تھی اور آتے جاتے میں وہاں رک جاتا اور کوئی کتاب رسالہ اٹھا کر ورق گردانی سے لے کر کئی ایک کہانیاں پڑھنے تک کھڑا رہتا کبھی کسی نے روکا ٹوکا نہیں ٗان دنوں فلمی دنیا کے دو ہفت روزہ رسائل بہت مقبول تھے ایک ہفت روزہ مصور تھا اور ایک ہفت روزہ ممتاز تھا اور یہ دونوں رسائل آتے ہی ختم ہو جاتے اس لئے مجبورا ًمجھے دونوں خریدنے پڑتے کیونکہ وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتے تھے، جمعہ کے دن نماز کے فوراً بعد میں جا کر لے آتا ان دنوں ان دونوں رسائل میں اسی طرح کی چپقلش تھی جیسے شعر و ادب کی دنیا میں شعراء کے مابین رہتی ہے اور میں سمجھتا ہوں اس سے میری طرح کے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچا ہو گا، فلم انڈسٹری میں مصور کی ٹیم کا داخلہ ممنوع تھا اور ممتاز کی پزیرائی تھی،اس حوالے سے ان دونوں رسائل کے موڈ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مگر یہ اختلاف خالصتاً ادبی اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے تھا چنانچہ ممتاز کا اداریہ معروف ادیب و مترجم و دانشور ستار طاہر مرحوم لکھتے تھے اور مصور کا اداریہ آج بھی صحافت سے جڑے ہوئے ادیب و دانشور غلام اکبر کی تحریر ہوتا، دونوں اپنے اپنے مؤقف کی حمایت ادب بلکہ عالمی ادب سے دلیلیں ”کوٹ“ کر کے دیتے تھے۔ سچی بات میری ادبی تربیت میں اس بک سٹال کا بھی نمایاں رول رہا ہے یہیں سے ہر ماہ ابن صفی کی عمران سیریز اور کرنل فریدی اور کیپٹن حمید کی جاسوسی سیریز بھی خریدتا تھا، میری تنخواہ کا بڑا حصہ کتب کی خریداری میں صرف ہوتا جو آج بھی میرے لئے سکون کا باعث ہے۔ میں ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ میں پبلی کیشن اسٹنٹ تھا اور میری تنخواہ اس وقت ایک سو تیس روپے تھی، میں چوک یادگار کے ایک بغلی مگر بہت اہم بازار ”اندر شہر“ میں واقع تاریخی مسجد مہابت خان سے ملحقہ کٹرہ مسجد مہابت خان کی دوسری منزل کے دو چارپائیوں کے ایک چھوٹے سے کمرہ نمبر پچیس میں رہائش پذیر تھا اور یہ زمانہ انیس سو ستر کے اوائل کا ہے۔ واپس چوک یادگار کی طرف چلتے ہیں اسی بک سٹال کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی میڈیسن کی دکان بھی تھی، جہاں دو میرے ہم عمر لڑکے گاہے گاہے نظر آتے غالباً یہ ان کے والد کی دکان تھی۔ بک سٹال کے جس کونے پر میں کھڑا ہوتا وہ میڈیسن کی دکان والی سائیڈ پر تھا۔ اس لئے ان دونوں لڑکوں سے کبھی کبھی دعا سلام ہو جاتی، حاجی کرم الٰہی کی دکان کے ساتھ ہی ایک دکان جو باہر سے نسبتاً کچی اور چھوٹی سی تھی اندر سے کافی کشادہ،جدید طرز کی اور خوبصورت تھی، اس دکان کے اندر اور باہر کئی خوبصورت چھوٹے بڑے لکڑی کے بورڈ لگے ہوئے تھے جن پر اردو اور فارسی کے اشعار لکھے ہوئے تھے،فارسی اشعارکا ان بورڈز پر لکھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پشاور کے طرحدار شہر ِ ہفت زبان میں ہندکو پشتو اور اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کا چلن کتنا عام تھا۔ یہ دکان ”شربت شکنجبین“ کی دکان تھی اور جس کے مالک کا اصل نام کا علم تو نہیں مگر دکان کے بورڈز پر جلی حروف میں جگہ جگہ لکھا ہوا نام تھا ”لکھی فقیر“ جو عجب لطف دیتا کہ وہ بیک وقت لکھی بھی تھا اور فقیر بھی تھا۔ دکان بھی باہر سے فقیر کی جھونپڑی اور اندرسے کسی لکھ پتی کا محل لگتی، وہاں شکنجبین کے حصول کا طریقہ بھی بہت انوکھا تھا دو انچی اونچے چبوترے بنے تھے ایک پر جا کر آپ پیسے دیتے وہاں سے آپ کو ایک پرچی ملتی پھر دوسرے چبوترے پر جا کر آپ پرچی دیتے جو ایک چھوٹے سے بکس میں ڈال دی جاتی جس پر لکھا ہوا تھا ”جناب سے پرچی لے کر اس بکس میں ڈالی جائے گی“ اس کے بعد آپ کو شربت کا ایک گلاس ملتا۔ مجھے علم نہیں کہ ستر کی دہائی میں ایسا سلسلہ باہر کی دنیا میں کہیں تھا یا نہیں تھا۔ لیکن جب میں پہلی بار کوئی پینتیس برس پہلے امریکہ گیا تو ایسا کچھ نہیں دیکھاتھا، مگر گزشتہ 22 برس میں باہر کی دنیا میں بہت بدلاؤ آیا اور اب ہر چھوٹے بڑے کھانے پینے کے مراکز اور خصوصاً فاسٹ فوڈ کے فرنچائز میں یہ معمول کی سرگرمی ہے، لیکن حیران ہوتا ہو ں کہ بلا کے باذوق لکھی فقیر کو کاروبار کی یہ تہذیب و تربیت کہاں سے ملی تھی، انہی دنوں چوک یادگار میں ایک نیا اضافہ یہ ہوا کہ چوک کے شمال مغربی میدان میں زمین پر ایک قلفی والا آ گیا، یہ شام سے ذرا پہلے آتا اور مغرب کے بعد چلا جاتا ویسے بھی مغرب کے بعد یہ سارا علاقہ خاموش ہو جاتا اور دکانیں توخیر سر شام ہی بند ہو جاتیں، اور ساری رونق گھنٹہ گھرکے اطراف میں سمٹ جاتی، جہاں زیادہ بھیڑ ”کشمیری“ تکہ فروش پر ہوتی جو ایک بند دکان کے باہراپنی انگیٹھی اور چند چوکیاں رکھ کر بیٹھ جاتا، میں اکثر وہاں جا کر اپنا ”ڈنر“ کرتا یہ ڈنر گوشت کی چارسیخوں اور ایک تنور کی بڑی روٹی اور انار دانہ کی لذیز چٹنی (جو بار بار لی جاسکتی تھی) پر مشتمل ہو تا اور جس کے  لئے مجھے ”پورا ایک روپیہ“ دینا پڑتا۔ گزشتہ روز رات گئے چوک یاد گار سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کچھ بھی تو ویسا نہیں تھا اب تو چوک کی یادگار کا بھی حلیہ وہ نہیں رہا، مگر نہیں ایک نشانی اب بھی باقی ہے جس کے گرد رات گئے دیر تک ایک رونق میلہ لگا رہتا ہے وہ تین آنے کی قلفی بیچنے والے کی دکان ہے جو زمین کی بجائے ایک بڑی دکان کی شکل اختیار کر گئی ہے اور ایک ادھیڑ عمر کے اکلوتے دکاندار کی بجائے اب سرو کرنے والے لڑکو ں کا پورا سکواڈ ہے۔ ہاں دو نشانیاں اور بھی تو ہیں ایک حاجی کرم الٰہی کا میرا ہم عمر بیٹا ڈاکٹر منیر جو شہر کا معروف معالج ہے، اور دوسرا بک سٹال سے ملحقہ دکان پربیٹھنے والا عبدالحمید گورواڑہ ہے جس سے اب بھی میرے دل و جان کے کئی رشتے ہیں،اور جس کا نام خدمت خلق کے حوالے سے اب کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ان کا محض ایک کمرے سے بیس بائیس برس پہلے شروع ہونے والا ”اتفاق کڈنی سنٹر“ جو آج جدید تر سہولیات اور بہترین کوالیفائیڈ معا لجین کی بدولت گردوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لئے کسی بشارت سے کم نہیں جہاں صرف بیس روپے کی پرچی سے ہزاروں لاکھوں روپے کا علاج مفت کیا جاسکتا ہے۔ مجھے عزیز ہے کہ اسے دیکھ کر مجھے چوک یادگار کا سنہرا زمانہ یاد آنے لگتا ہے اس کا دم غنیمت ہے ورنہ، اور تو کوئی صورت ان دنوں کی نظر نہیں آتی۔ آتش یاد آگئے۔
 اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں 
 روئیے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئے