کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ہم ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں کسی کام سے گئے ،مجسٹریٹ سامنے کھڑے ہوئے ملزم سے کہہ رہاتھا آخر تم نے اس بدبخت نشے میں کیا دیکھا، چھوڑتے کیوں نہیں ہو، اپنی شکل دیکھو، نشے نے کیا بناکر رکھ دیا، اس کی جگہ کوئی پھل کیوں نہیں کھاتے۔ ہم نے اس کے ٹارگٹ کو دیکھا واقعی ایک انجربنجر جیسا شخص کھڑاتھا اورسن رہاتھا۔
تقریباً سارے معاشرے کاحال اس مجسٹریٹ جیساہے جب بھی اورجہاں بھی کوئی نشئی دیکھتے ہیں، نصیحتوں کاپٹارہ کھول دیتے ہیں ۔آج کل بھی۔ اورپھر ہمارے صوبے خیبر پختون خوا میں یہی صورت حال ہے ،منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن۔ صوبائی حکومت نے یہی نام دے رکھا ہے۔
اس چلاچل کاجس میں سب اپنی اپنی چال چل رہے ہیں ،سرکاری ادارے بھی چل رہے ہیں، بیانات بھی چل رہے ہیں، وزیرلیڈر، معاونین خصوصی سب چل رہے ہیں اورمنشیات بھی چل رہی ہیں۔ کچھ دنوں تک یہ ہوتا رہے گا، بیان باز بیان دے دے کر مذمت کریں گے۔ دانا دانشور، اخبارات اورٹی وی چینلوں پر اپنی اپنی دانائیاں اور دانشوریاں بگھارتے ہیں اورپھروہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب ہوگئی ۔
پھر بہارآئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھروہی پاؤں وہی خارمغیلاں ہوں گے
لیکن دانائی اوردانشوری کے سیلاب میں باقی تو سب ہوگا لیکن اس سوال کاجواب کہیں سے نہیں آئے گا جو ہمیشہ سے موجود رہاہے، موجود رہے گا اورہمیشہ موجود رہے گا کہ ناہموار معاشرے یہی پھل دیتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ایک اچھابھلاسمجھ دارانسان کیوں کوئی نشہ کرکے خود کو عذاب میں مبتلاکرتاہے جیسا اس مجسٹریٹ نے کہاتھاکہ ان پیسوں سے تم کوئی پھل خرید کر کیوں نہیں کھاتے۔ ایک لحاظ سے ہمارا یہ سارا معاشرہ وہی مجسٹریٹ ہے۔یہ بات پہلے سے ذہن میں رکھیں کہ منشیات کااستعمال ایک طرح سے قسط وارخودکشی ہوتی ہے جو ذرادلیرہوتے ہیں یاانتہاتک پہنچ جاتے ہیں وہ خودکشی کرکے اس عذاب سے بچ جاتے ہیں یافرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن منشیات کاسہارا لینے والے یاتو بزدل ہوتے ہیں یاان کے دل ودماغ میں امید کی کوئی نہ کوئی کرن ابھی باقی ہوتی ہے۔
میں بغیرکسی معذرت کے کہتاہوں کہ صرف منشیات ہی نہیں بلکہ ھمہ اقسام کے جرائم ،بے راہ رویا ’’ناہموارمعاشرے‘‘کی پیداوارہوتے ہیں اورناہموار معاشرہ حکومت کاذہن ہوتاہے ،جب حکومت اپنے ’’حقوق‘‘ تو بڑھ چڑھ بلکہ اورکچھ زیادہ ہی عوام سے وصول کرتی ہے اوراپنافرض ایک بھی ادا نہیں کرتی تو یہی نتیجہ ہوتاہے، ہرشخص ایک شدید عدم تحفظ میں مبتلا ہوجاتاہے، وہ دیکھتاہے کہ اس معاشرے میں ایسا کوئی نہیں جو اسے اپنے جائزحقوق دلائے تو اس کے دماغ میں اس معاشرے کے خلاف ایک زہرپیداہونے لگتا ہے اوروہ زہرپھر یاجرائم کی شکل میں نکلتاہے اوریاخود کشی کی شکل میں یامنشیات یعنی دھیرے دھیرے خودکشی کی شکل میں ۔
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
جب ایک شخص دیکھتاہے کہ میں دن رات خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود دووقت کی روٹی بھی حاصل نہیں کرپاتا اوردوسرا کچھ بھی نہ کرکے سب پائے ہوئے ہے۔جب ایک شخص دیکھتاہے کہ محنت کرکے اس نے ڈگری حاصل کی ہوئی ہے لیکن پھر بھی روزگار نہیں مل رہا اور نالائق نالائق لوگ اونچی کرسیوں پر براجمان ہیں تو وہ کیاکرے گا اگرتھوڑا سادلیرہے تو جرائم کرے گا یاپھر نشے کی پناہ لے لے گا۔
نشہ کیاہے؟کوئی بھی نشہ ہو۔ایک ہی کام کرتا ہے، بے خود کرنا،حسیات واحساسات کوسلانا۔
یادماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
نشہ ہی حافظہ چھیننے کاذریعہ بنایاجاتاہے۔
مان لیاکہ معاشرے میں وہ عناصربھی اس کے ذمے دار ہیں جو نشہ فراہم کرتے ہیں اورپھر لوگوں کو نشے میں مبتلا کرنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کرتے ہیں درسگاہوں میں بچوں کو سبزباغ دکھاتے ہیں لیکن اصل چیزوہی ہے ۔چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔یایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔
جہاں تک ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں کاتعلق ہے وہ تو زورشورسے دکھائے جارہے ہیں ،یہ بیانات یہ اقدامات یہ گرج چمک صرف ایک دکھاوا ہے، اینٹی نارکوٹک بھی دھوکا ہے ،دوسرے ادارے اور شخصیات بھی فریب ہیں کیوں کہ سارے’’گل‘‘جہاں جہاں بھی کھلتے ہیں یاکھلے ہوئے ہیں،انھیں اداروں ہی کے کھلائے ہوئے ہیں۔