کراچی: دنیا کا کون سا کونہ ایسا ہے جہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں، یا انھیں قدرتی آفات کا سامنا نہ ہو لیکن ہمارے ارباب اختیار کی نالائقی اور بے حسی نے ’’ گڈ گورننس‘‘ کا صرف راگ الاپنا سیکھا ہے، لیکن یہ اچھی حکمرانی ہوتی کیا ہے ؟ ہمارے حکمران یہ سب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میں آئے روز سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔
وہاں پُرتعیش مقامات میں ٹھہرتے ہیں، وہ سب یہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ ’’گڈ گورننس‘‘ کسے کہتے ہیں، لیکن افسوس ہے ان کی بے حسی پرکہ سب کچھ جانتے ہوئے انجان بنے ہوئے ہیں اور جب وہ گڈ گورننس کرنا ہی نہیں چاہتے تو اس کا کیا علاج کیا جائے۔ سیانے کہتے ہیں اور درست ہی کہتے ہیں کہ سوئے ہوئے کو جگانا ممکن ہے لیکن اگر کوئی سوئے ہوئے ہونے کی اداکاری کر رہا ہو تو اسے کیسے جگایا جائے۔
ہم سب کو منظم منصوبے کے تحت صرف غم روزگار میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ ان ہی حکمرانوں نے کبھی عوام کو آسودہ ہونے ہی نہیں دیا کہ وہ کچھ اور سوچیں، انھیں مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیسا جا رہا اور افسوس ہے ہم پر کہ کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے اور اگر کوئی مخلص جماعت اور اس کے راہ نما انھیں اس گرداب سے نکلنے کی راہ بتائیں تو اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
ہم عام لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں اور نہ ہی کسی ادارے نے ہمیں ایسی تربیت فراہم کی ہے کہ ان مشکلات کا سامنا کیسے کرنا ہے اور قدرتی آفات سے بچاؤ کیسے ممکن ہے ؟ اور اگر ممکن نہیں بھی تو ان آفات سے نقصانات میں کمی کیسے کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے ہمیں کیسے تیار رہنا چاہیے۔وطن عزیز میں برس ہا برس سے یہی چند خاندان حکمران ہیں اور ہمارے معصوم لوگ حکمرانوں کی نااہلی سے زیادہ ان کی سفاکی، لالچ اور بے حسی کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
ان حالیہ بارشوں کی وجہ سے آئے ہوئے سیلاب میں بھی ایسے دل خراش مناظر دیکھنے و سننے کو مل رہے ہیں جس سے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں، لیکن افسوس ہے ہمارے سیاستدانوں پر جن کی زندگی میں اس عوام نام کی مخلوق کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان ہی کے ووٹوں سے وہ عیاشیاں کر رہے ہیں۔ اور سلام و آفرین ہے ان تمام فلاحی و مذہبی تنظیموں پر جو اول روز سے ہی اپنے مقدور بھر وسائل کیساتھ میدان عمل میں ہیں اور اپنے عوام کے بوجھ بانٹ رہے ہیں۔
کیا فلاحی تنظیمیں حکومتی اداروں کا متبادل ہیں؟ ’’نہیں!‘‘ فلاحی تنظیمیں حکومتی اداروں کا متبادل اس لیے نہیں ہوسکتیں کہ ان کے وسائل محدود ہوتے ہیں، وہ عوام کے رضاکارانہ عطیات سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں، جب کہ حکومتیں تو عوام سے ان کی فلاح و بہبود کے لیے ٹیکس وصول کرتی، اور پورا ایک مربوط نظام رکھتی ہیں، لیکن کیا ہم سب یہ نہیں جانتے کہ ٹیکس کا پیسا اکثر ان ہی کی بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔
آپ پاکستان کی تاریخ اٹھالیں جب بھی کوئی قدرتی آفت آئی ہے حکومتی اداروں سے زیادہ سرگرم الخدمت اور دیگر فلاحی تنظیمیں رہی ہیں، حکومت سے زیادہ موثر کام ان فلاحی تنظیموں نے کیا ہے جو آج بھی اول دن سے سرگرم ہیں۔ ترکی، سعودی عرب، امریکا، چین اور دیگر ممالک سے امداد کی ایک بڑی کھیپ کے پہنچنے کا اعلان اس بار بھی ہوا۔
لگتا یہی ہے کہ ہمارے پیارے ارباب اختیار اسی امداد کے منتظر تھے جس کا حساب کتاب نہ پہلے ملا ہے اور قوی امکان ہے کہ اب بھی نہیں ملے گا۔ خیر بات ہورہی تھی کیا فلاحی تنظیمیں متبادل ہیں حکومتی اداروں کی ؟ جی نہیں ! اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات بدلیں تو ہمیں سب سے پہلے تو ان سیلاب زدگان کی امداد کیساتھ حکومت کے ذمے داران کا احتساب کرنا ہوگا۔
ان سے سوال کرنا ہوگا کہ نیشنل ڈیزاسٹرز مینیجمنٹ کہاں سویا ہوا تھا جب کہ شدید اور انتہائی بارشوں کی پیشن گوئی محمکہ موسمیات پہلے سے کر رہا تھا تو انھوں نے اس کی تیاری کیوں نہیں کی، ہنگامی حالت کے لیے استعمال ہونیوالا بجٹ کہاں ہے، اور سب سے زیادہ تلخ سوال یہ کہ جب وطن عزیز اتنے مسائل سے گھرا ہوا ہے تو ان کی عیاشیاں کس کھاتے میں ہورہی ہیں ؟
خدا کے لیے اب تو قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ ہر طرف سے ہم پر ظلم جاری ہے اور ہم اپنا حق لینے کے بہ جائے مظلومیت کی داستان بنے ہوئے ہیں۔ آواز اٹھائیں گے تو شاید کچھ عملی اقدامات بھی ہوں، اس سرکاری اسکولوں میں انھیں بسانا دانش مندانہ فیصلہ نہیں کم از کم عوام کے لیے نہیں البتہ سندھ حکومت جو ہمیشہ سے صرف اپنا بھلا سوچتی ہے اپنے لیے اچھی مینجمنٹ کا ثبوت دیا۔
بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا اس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں، کراچی جیسی سونے کی چڑیا کو اپنے ہاتھ سے وڈیرے جانے کیسے دیں گے ؟بات ہورہی تھی سیلاب زدگان کی، فلاحی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ان کی ضروریات کیساتھ ان کے روزگار پر فوری توجہ دیں۔ ہاری و کسانوں کو مفت یا نہایت سستے دام کاشت کے لیے بیج، کھاد اور دیگر ضروریات فراہم کریں ، تاکہ ملک کو غذائی قلت سے بچایا جا سکے۔
اپنے پیارے وطن کی حالت دیکھ کر واقعی سمجھ نہیں آتا کہ بلوچستان کا نوحہ لکھیں یا سندھ کا کرب سنائیں، پنجاب کا درد لکھیں یا خیبر پختون خوا کا غم۔ گلگت کا المیہ بیان کریں یا آزاد کشمیر کا دل ہے کہ پھٹ جائے گا۔ان سفاک سیاست دانوں سے محبت پہلے بھی نہیں تھی، لیکن اب تو نفرت سی ہو چلی ہے۔
جنہیں سوائے اپنی عیاشیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ چھے مہینے سے غیر معمولی بارشوں کی پیشن گوئی تھی، حکومتی ادارے اتنے غافل اور اتنے نااہل ہیں کیا انھیں خبر نہیں تھی کہ کیا حشر ہوگا؟ سب علم ہوگا لیکن جب عوامی خدمت کے نام پر مال کھانے کا مزہ لگ جائے تو ان کے لیے یہ سنہری موقع ہے جسے گنوانا نہیں چاہتے تھے۔
سو عوام کو بَلّی چڑھا دیا اور خود مزے کررہے ہیں، لیکن ایک دن یہ مزے ختم ہوں گے جب کیچڑ میں لپٹی، تیز موجوں کی نذر ہوتی مائیں، بہنوں اور بیٹیوں اور بیٹوں اور معصوم کلیوں کی لاشیں محشر میں ہر اس فرد کا گریباں پکڑیں گی جو کار حکمرانی میں شریک تھے اور ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا قیامت سے پہلے بھی قیامت بپا ہوگی؟یہ سوال بہت اہم ہے جو ہمیں خود سے کرنا چاہیے۔
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
میر تقی میر نے تو ایک شہر کا نوحہ کہا تھا لیکن یہاں تو پورے کا پورا ملک ہی سیلاب لے گیا۔ قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں لیکن اگر قوم باشعور ہو تو وہ مزید مستحکم ہو کر اپنے دست بازو پر کھڑے ہو کر دنیا کو دکھا دیتی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں لیکن اگر وہ بس انسانوں کا ریوڑ ہو تو منتشر رہتی ہے اور اپنی طاقت پر کمزوری کو غالب رکھتے ہوئے اونچائی پر جانے کے بہ جائے خود کو نیچے کی طرف جانے سے روک نہیں پاتی۔