مزدور تحریک اور اس کے حوالے سے جدوجہد اور جیل و قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والے رہنماؤں کی بڑی تعداد آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے لیکن اس راہ میں جان تک کا نذرانہ پیش کرنے والے بینکنگ انڈسٹری کے رہنما شہید عثمان غنی کی چھبیسویں برسی منائی جارہی ہے۔
عثمان غنی 1948 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے این جے وی ہائی اسکول سے میٹرک جب کہ گریجویشن کراچی یونیورسٹی سے کیا اور بینک میں ملازمت اختیار کی۔ وہ شروع ہی سے انقلابی اور مظلوم مزدور طبقے کی حمایت میں انتہائی پرجوش خیالات رکھتے تھے۔
یہ سوچ انھیں مزدور تحریک اور پیپلز پارٹی میں لے آئی اور وہ 1972 میں بینک کی سی بی اے یونین کے مرکزی صدر منتخب ہوگئے اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار ملک کے ممتاز مزدور رہنماؤں اور پی پی پی کے جیالے قائدین میں ہونے لگا۔
مزدور تحریک میں عثمان غنی شہید کو ایک فائٹر اور قربانیاں دینے والے قائدین میں شمارکیا جاتا تھا جب کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی انھوں نے شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں جدوجہد کی اور قید و بند کی کٹھنائیاں خوش دلی سے برداشت کیں۔
راقم الحروف کی معلومات کے مطابق عثمان غنی کا شمار ان مزدور رہنماؤں میں ہوتا ہے کہ جنھوں نے محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد مرتبہ جیل کاٹی اور وہ اس تحریک کے غالباً واحد رہنما تھے کہ جنھیں قتل بھی کردیا گیا۔ عثمان غنی نے بینکوں کے ملازمین کے حقوق کے لیے بھی مثالی جدوجہد کی اور کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ بینک ملازمین آج بھی انھیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں صنعت بینکاری نے اب تک تین ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور 1947سے 1974 تک کا ہے کہ جب تمام کمرشل بینک پرائیویٹ سیکٹر میں تھے۔ دوسرا دور جنوری 1974سے شروع ہوتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے تمام کمرشل بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا اور یوں ملک کا بینکنگ سیکٹر سرکاری کنٹرول میں آگیا۔
تیسرے دور کا آغاز 1991سے مسلم لیگ کے دور ِحکومت سے شروع ہوا ہے کہ جب قومی ملکیتی بینکوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں بیچنے کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلم کمرشل بینک سب سے پہلے اس کی زد میں آیا۔عثمان غنی نے مندرجہ بالا دو ادوار میں بینکوں کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور مزدور تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
عثمان غنی کو آخری بار نواز شریف کے دور حکومت میں نج کاری پالیسی اور بینک کی پرائیویٹائزیشن کے خلاف تحریک میں 1991 کے اوائل میں گرفتار کیا گیا، اس گرفتاری اور جیل و قید و بند میں راقم الحروف کو بھی ان کی ہم راہی کا شرف حاصل ہوا تھا۔
عثمان غنی ایک ایسے مزدور رہنما تھے کہ جنہیں تاریخ میں ایک فائٹر ٹریڈ یونینسٹ کے نام سے یاد رکھا جانا چاہیے۔ان کی تمام تر زندگی مزدوروں کے حقوق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم تلے جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں گذری، ایک انتہائی فعال سیاسی رہنما اور پی پی پی سے تعلق بھی رکھتے تھے۔
انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں ملک میں جمہوریت کی بحالی اور اس کے استحکام کی جدوجہد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اس ضمن میں بھی کئی بار پابند سلاسل بھی رہے۔انھیں یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے دیگر ترقی پسند ساتھیوں کے ہمراہ بینظیر بھٹو کو اس امر پر قائل کیا کہ پارٹی کا لیبر ونگ قائم کیا جانا چاہیے اور اس طرح پیپلز لیبر بیورو کا قیام عمل میں آیا۔
عثمان غنی کی پہلی گرفتاری 1974 میں اس وقت عمل میں آئی جب وہ بینک کے ملازمین کے لیے پرافٹ بونس کے اجراء کے لیے احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے، پولیس نے انھیں جلسہ عام سے گرفتار کیا اور سینٹرل جیل کراچی منتقل کردیا اور یوں ان کی قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔قید وبند کی صعوبتیں ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی اور انھیں کمرشل بینکوں کی ٹریڈ یونینزمیں احتجاجی تحریکوں اور ملازمین کا ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔
ان کے مزدور دوست اور سامراجی سرمایہ دارانہ نظام دشمن رویہ نے جہاں انھیں محنت کشوں میں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا تو دوسری جانب عوام دشمن قوتیں ان کی جان کی دشمن بھی بن گئیں۔ عثمان غنی کراچی کے قدیمی علاقے چنیسر گوٹھ کے رہائشی تھے اور انہو ں نے اپنی بھرپور سیاسی زندگی بھی اسی علاقے میں گزاری۔ پی پی پی کے پلیٹ فارم سے انھوں نے اسی حلقہ سے اسمبلی کے انتخابات بھی لڑے اور مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہ اس حلقہ کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں میں بھی شمار ہوتے تھے۔
جہاں انھیں انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ وہی حلقہ ہے کہ جہاں ان کی شہادت کے بعدان کے سب سے بڑے فرزند سعید غنی نے بھی سیاست کا آغاز کیا اور صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اور آج صوبائی وزیر محنت و تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔
ستمبرکا مہینہ اتفاق اور بدقسمتی سے ایک ایسے مہینے میں شمارکیا جاتا ہے کہ جس میں متعدد سانحات نے جنم لیا۔قائداعظم محمد علی جناح اسی ماہ ہم سے جدا ہوئے، علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری بلدیہ کراچی کا اندوہناک حادثہ جس میں 260 غریب بے قصور مزدور جل کر راکھ ہوئے، نائن الیون کا واقعہ ستمبر ہی میں وقوع پذیر ہوا جب کہ معروف مزدور رہنما عثمان غنی بھی اسی مہینہ میں شہید کیے گئے۔
1995میںستمبر کی 17تاریخ کو عثمان غنی چنیسر گوٹھ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے اپنے دفتر واقع ہیڈآفس بینک کے لیے روانہ ہوئے ابھی ان کی کار کالا پل پہنچی ہی تھی کہ پل پر گھات لگائے ہوئے مسلح افراد نے ان کی کار کو گھیر لیا اور انھیں ہم سے چھین لیا۔