112

انسان کا زوال ہوچکا ہے

Elasinکہتا ہے کہ ’’ لوگ ڈھونگ کرتے ہیں کہ وہ اپنے برے کاموں سے بے خبر ہیں ، وہ ہر چیز سے واقف ہیں۔‘‘Albert Camus اپنے شاہکار ناول “The Fall” میں ہمیں بتاتا ہے کہ انسان اپنی زبردست اور ہر قوت آقائیت پر یقین رکھتے ہوئے ایک بہت بڑے فراڈ کا روپ دھار چکا ہے۔

وہ اپنے کرب کو برداشت کرتا ہے مجبور ہے کہ اپنے آپ سے باتیں کرے ’’ زوال ‘‘ کو کا میوکا بہتر ین ناول تسلیم کیا گیا ہے حتی کہ سارتر کی بھی یہ ہی رائے تھی ’’ زوال ‘‘ کا کردار کلیمنس نے ایک شام میں اس نے اپنے پیچھے ایک گہرے دلی قہقہے کی آواز سنی ۔ یہ ایک دوستانہ قہقہہ تھا وہ یہ نہیں دیکھ سکا کہ یہ قہقہہ کس نے لگایا تھا لیکن جب گھر جا کر وہ آئینے میں اپنی صورت دیکھتا ہے تو اسے یوں نظر آتا ہے کہ جیسے اس کی مسکراہٹ دہری ہے۔

اس واقعہ کے بعد وہ بدل جاتا ہے ، وہ اپنے بارے میں مختلف باتوں کو جانتا ہے جن میں ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ وہ ایک بے کار اداکار ہے جو اپنے فائدے کے لیے اداکاری کرتا ہے اس کی زندگی محض ایک تسلسل ہے میں ، میں ، میں کا۔ ایک اجنبی نے اسے بازار میں پیٹا اور اس کی توہین کردی کئی دنوں تک وہ تلخی اور رنج کے شکنجے میں جکڑا رہا وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا وجود دو حصوں میں بٹا ہے۔

وہ بتاتا ہے کہ نوجوانی میں اس نے کیسے کیسے کھیل کھیلے وہ محبت کا تجربہ نہیں کرتا تھا بلکہ اس وقت تک لطف اندوز ہوتا جب تک بور نہ ہوجاتا۔ پھر وہ اعتراف کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے ، اس کے خیال میں دو یا تین برس ہوئے جب اس نے قہقہے کی آواز سنی اس نے موت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے اس نے لوگوں کی اہانت شروع کردی وہ ان سے متشددانہ طریقے سے پیش آنے لگا ، اس نے جارحیت اپنالی۔ وہ بازاروں میں مزدوروں کو دیکھ کر ان پر آوازیں کسنے لگا۔ اس کی پرانی عادتیں بدل گئیں وہ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا۔

بچوں کو پکڑ کر پیٹنے لگا اسے خود معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے اس نے لذت اور شراب میں اپنے آپ کو غرق کرنا چاہا لیکن اس سے بھی سہارا نہ ملا۔ اسے یا د آتا ہے کہ اس نے ایک دبلی پتلی نوجوان عورت کو جو سیاہ لباس میں ملبوس تھی دریائے سین سے چھلانگ لگاتے دیکھ کر اسے مرنے سے نہیں روکا تھا۔

اب اس لڑکی کا جسم ’’ میرا انتظار کرتا ہے ہر جگہ ‘‘ اسے افسوس ہوتا ہے کہ وہ صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ وہ مذہب کا دشمن ہو جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں ایک نیا تصور اس کے ذہن میں جنم لیتا ہے ’’ وہ سپرمین نہیں تھا ‘‘ اس نے بلند آواز میں اپنے کرب کا اظہار کیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ ہمیں اکیلا چھوڑ گیا۔ اسے ملیریا ہوجاتا ہے وہ بستر پر لیٹا ہے اسے جنگ یاد آتی ہے وہاں اسے پوپ بنایا گیا تھا کیونکہ بد قسمت اور کچلے ہوئے انسانوں کو ایک پوپ کی ضرورت ہے۔ وہاں جنگ کے درمیان کیمپ میں پوچھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ ناکامیاں کس نے دیکھی ہیں ؟ وہ مذاق میں اپنا ہاتھ اٹھا دیتا ہے اور اسے پوپ بنا دیا جاتا ہے اسے گروپ لیڈر بنا کر پانی کی ذمے داری سونپ دی جاتی ہے ۔

’’ اس روز میں نے دن کو دائرے میں بند کر دیا جب میں نے ایک مرتے ہوئے دوست کے حصے کا پانی پی لیا تھا ‘‘ وہ ایک خواہش کے عذاب میں مبتلا ہے ’’ اے نوجوان عورت ایک بار پھر اپنے آپ کو دریائے سین میں پھینکو تاکہ مجھے ایک موقع دوسری بار مل سکے کہ دونوں کو تمہیں اور اپنے آپ کو بچا سکوں یا پھر ہم دونوں ہی ایک ہی اس راستے سے گذر جاتے اور پھر۔‘‘ خوش قسمتی سے ہمیشہ تاخیر ہوجاتی ہے ۔

’’ زوال ‘‘ کا یہ کلیدی استعارہ ہے کہ وہ ایک غلام ہے اپنی اس ضرورت کا کہ باتیں اس کی خطابت بھی اس کے جھوٹ نہیں چھپا سکتی۔ وہ اکیلا ہے اور بنجر ہوچکا ہے تاہم وہ سمجھتا ہے کہ ہم روشنی کا راستہ ، صبحیں جس میں اور ان لوگوں کی پاک معصومیت کھو چکے ہیں جو اپنے آپ کو معاف کردیا کرتے تھے۔

اب ہم اپنے آپ کو معاف کرنے کی صلاحیت اور معصومیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ زوال ‘ کا مطالعہ ہم پر آج کے انسان کی صحیح صورت واضح اور اس زندگی کا آئینہ دکھاتا ہے جہاں انسان ان گنت الجھنوں اور پیچیدگیوں میں جکڑا ہوا ایک سادہ اور آسان زندگی گذارنے کا خواب دیکھتا ہے۔

2016 میں امریکا میں Biographical drama فلم بنائی گئی جس کا نام “Brain on Fire” ہے یہ فلمSusannah Calahan’s نیوز ایڈیٹرکی یاد داشت پر مبنی ہے جب وہ آہستہ آہستہ دن بدن خراب ہوتی دماغی کیفیت سے اپنے ہی اندرکہیں گم ہوجاتی ہے۔

اس کیفیت میں اسے نہ وقت کا احساس رہتا ہے نہ ہی اپنی محبت کا، نہ ہی خود پر اختیار اور نہ ہی اپنے جسم پہ کوئی اختیار رہتا ہے۔ اچانک ہی سے جیسے ایک زندہ لاش کی طرح پڑے رہنے والی زندگی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ انسانی دماغ کتنا پیچیدہ ہے ، اس کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے عمرگزر جاتی ہے لیکن کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ کیا ہوتا ہے جب انسان اپنے ہی دماغ اور جسم میں قید ہو جائے ، وہ ہوتا وہیں ہے لیکن پھر بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔

کیا آپ کو خود سے ڈر لگا ؟ اتنا ڈر کے آپ خود سے ہی بھاگ جانا ، چاہیں کہیں دور اور بالا آخر اسی جسم اور دماغ کی کشکمش میں اپنے ہی اندر قید ہوکر رہ جائیں۔ کیا آپ زندگی میں کھوئے ہیں۔کبھی بچپن میں یا ویسے ہی راستے میں کوئی راہ بھول گئے ہوں، وہاں رک کر سوچا تو ہوگا ایک پل کے لیے کہ کاش کوئی کہیں سے ڈھونڈ تا ہوا آئے اور مجھے نکال لے جائے یہاں سے۔ سوچا تھا کبھی ؟ ہماری زندگیوں میں کوئی نجات دہندہ ہمیں ڈھونڈتا ہوا آئے یا نہیں لیکن آپ اس لڑکی کے بارے میں ضرور جاننا چاہیں گے کہ اسے اس کے اندر سے پھر کسی نے ڈھونڈا یا نہیں۔ اس کے لیے آپ کو یہ فلم دیکھنا پڑے گی۔

یہ ایک سچی کہانی ہے سچے واقعات پہ مبنی۔ اس فلم کے جیتے جاگتے کردار ہماری اس دنیا کا حصہ ہیں۔ یہ کردار دنیا کے ہر سماج میں موجود ہیں بس ان کی تعداد کہیں کم اورکہیں زیادہ ہے۔ یہ کردار آپ بھی ہوسکتے ہیں، لیکن یہ بات تو یقینی ہے ان کی تعداد تمام تر تجزیوں کے بر خلاف انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ آج کا انسان اپنا قیدی آپ ہے ۔

ایسا بے بس قید ی جو اپنی قید خود بڑھاتا ہی چلا جارہا ہے ۔ جن کی زندگیاں خسارے میں ، خوف میں ، تنہائی میں ، قید میں اور بدگما نی میں گذر رہی ہوں صرف وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ اس نوعیت کے حالات میں زندگی گذارنا کیسا ہوتا ہے۔

سوئیڈن کے کلاس پونٹس آرنلڈ سن نے نوبیل انعام لیتے ہوئے اپنے خطے میں کہا تھا ’’ ناروے کی ایک قدیم داستان بتاتی ہے کہ ایک زمانہ تھا جب سڑکیں سونے کی اینٹوں سے بنائی جاتی تھیں، مگر سونے چاندی کی بہتات کسی کو بھی گناہ کی طرف راغب نہیں کرتی تھی۔ وہ وقت جب لوگ پاک باز ہوا کرتے تھے اور دانش کے جذبے کے فیضان سے ان کی رسوم اور قوانین نرم تھے پوری دنیا خوشحال زندگی بسر کرتی تھی اور پھر یہ جنت تنازعات اورکم رتبہ قدروں کی دلدل میں دفن ہوگئی پھر بھی اس کو دوبارہ پانے کی امید ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔

بنیادی طور پر انسان کی فطرت نیک ہے یا شاید نہ نیک نہ خراب ۔ بہرحال انسان وہ شے ہے جس پرکام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس حقیقت کوگرہ میں باندھ کر رکھ لینا چاہیے کہ انسان پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔