جدہ سعودی عرب میں پوسٹنگ کے دوران ایک دفعہ گورنر مکہ کے دفتر سے149 افراد کی ایک فہرست موصول ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ پاکستانی مختلف جرائم میںطائف کی جیل میں بند تھے۔ان میں سے ایک خاتون اور اس کا اٹھارہ سالہ نوجوان بیٹا منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں قابلِ گردن زنی قرار پائے تھے۔
خاتون پاکستان سے بظاہر عمرہ ادائیگی کے لیے جب سعودی عرب روانہ ہوئی تو وہ امید سے تھی اور جیل پہنچ کر اس نے بچے کو جنم دیا تھا۔دو سال کی عمر ہونے پر بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا تھا، اس لیے سعودی انتظامیہ نے ہم سے کہا تھا کہ اس بچے کو طائف جیل سے لے لیا جائے۔
فہرست پاکستان میں وزارتِ داخلہ کے ساتھ شیئر کی گئی تو معلوم ہوا کہ149 افراد میں سے صرف 3پاکستانی جب کہ باقی 146اصل میں افغان باشندے تھے،جو جعلسازی اور رشورت کے ذریعے پاکستانی کاغذات بنوا کر بیرونِ ملک کام کر رہے تھے۔
پاکستان کے اندر پاسپورٹ اتھارٹی اورسفارت خانہ ء پاکستان کے کچھ اہلکار و افسران جو پاسپورٹ کی Renewal تجدیدسے وابستہ ہوتے ہیں ان کے وارے نیارے تھے۔ سعودی عرب میں اُس وقت ایک بھی ایسا افغانی نہیں دیکھا جو افغانی پاسپورٹ پر وہاں ہو۔ افغانیوں کے علاوہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اور کئی ایک فلسطینی بھی پاکستانی پاسپورٹ کے حامل نظر آئے البتہ افغانیوں کے علاوہ اور کوئی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔ افغانی جو بھی کریں، ہم اُن کی دلجوئی میں ہی لگے رہتے ہیں۔
1947 میں پاکستان بننے کے فوراً بعد اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی ممبرشپ کے موقعے پر دنیا کے صرف ایک ملک،ہمارے نام نہاد ،برادر اسلامی ملک افغانستان کی مخالفت تو اب بہت پرانی بات ہو گئی ہے اور اس کا تذکرہ بے سود ہو گا۔ افغان حکومتوں کاچار دہائیوں تک پختونستان کا شوشہ بلند کرنا،اسی طرح ظاہر شاہ،صدر داؤد،،ترہ کئی، نجیب اﷲ، مجددی،ربانی اور کرہ زئی کی افغان حکومتوں کے دوران پاکستان کے بارے میں افغانستان کے کردار کا باب کھولنا کوئی بامعنی بات نہیں ہو گی۔
اشرف غنی اپنی صدارت کے لیے ہمیشہ پاکستان سے مدد طلب کرتا رہا لیکن صدر بننے کے بعد پاکستان کو نقصان پہنچانے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اب افغان طالبان کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ پوری شد و مد سے جاری ہے اور بعض دفعہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغان ذہن پاکستان کے حوالے سے کچھ اچھا سوچ ہی نہیں سکتا۔افغانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے ہر قصبے،ہر شہر میں موجود ہے۔کراچی میں سہراب گوٹھ اور کئی دوسری بستیوں میں افغانی ہی افغانی ہیں۔وہاں ان کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر افغان پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ تکلیف دہ ہے لیکن اس سے بھی بڑی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ افغان،ہمارے پیارے پرچم کی بے حرمتی کرتے نظر آتے ہیں۔ایک وڈیو میں ہمارا ایک پیارا سندھی بھائی وزیرِ اطلاعات سندھ کو بتا رہا ہے کہ ایک افغانی نے پہلے پاکستان کو گالی دی،پھر اس نے پاکستانی پرچم کو اُٹھایا اور اپنے پاؤں تلے مسلنے لگا۔اس پیارے بھائی نے وزیرِ موصوف کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ فائنل کرکٹ میچ میں پاکستان کی ہار پر کراچی میں افغانیوں کی ایک بڑی تعداد خوشی کے شادیانے بجاتے سڑکوں پر آ گئے اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی۔ان کی جرات کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستانیوں کی گاڑیوں کو راستہ نہیں دے رہے تھے۔
وزیرِ اطلاعات سندھ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس دوران ایک پاکستانی کو افغانیوں نے اغوا کیا،اس کو برہنہ کر کے لمبا چاقو دکھاتے ہوئے اسے مجبور کیا گیا کہ وہ افغان پرچم کو چومے اور سلام کرے۔وزیرِ اطلاعات سندھ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پولیس اور دوسرے سیکیورٹی اداروں کو حرکت میں لاکر افغانیوں کی غیر قانونی، پاکستان مخالف سرگرمیوں کو لگام ڈالی جائے۔
سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کے اندر،پاکستان کے خلاف اس دیدہ دلیری کی اجازت کیوں۔دو تین سال پہلے انگلینڈ میں منعقد ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ مقابلوں کے دوران افغانستان اور پاکستان کا میچ ہوا جسے افغان تماشائیوںنے پاکستانیوں پر حملے کرتے ہوئے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ افغان ٹھہرے ہمارے پڑوسی اور مسلمان بھائی۔
15اگست2021کو امریکیوں کے افغانستان سے انخلا اور اس کے نتیجے میں افغان طالبان کی حکومت میں واپسی کے بعد پاکستان نے ہر ممکن طریقے سے افغانستان کی مدد کی۔مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان سے فوراً امداد روانہ کی گئی۔
امداد سے لدے پاکستانی ٹرک جب افغانستان داخل ہوئے تو کابل کے راستے میں ٹرکوں کو روک کر پاکستان کے خلاف زہر اگلا گیا اور ٹرکوں سے پاکستانی پرچم اتار لیا گیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر پاکستان سے اتنی نفرت ہے تو امداد سے لدے ان ٹرکوں کو واپس بھیج دیا جاتا لیکن امداد تو وصول کر لی گئی البتہ پاکستانی پرچم اتار کر پھاڑ ڈالا گیا۔القاعدہ رہنماء ایمن الظواہری کی امریکن ڈرون اٹیک میں ہلاکت کو بھی پاکستان سے جوڑا گیا حالانکہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ امریکی ڈرون ایک وسط ایشیائی ریاست سے اُڑایا گیا تھا۔
طالبان تحریک کے بانی جناب ملا عمر کے صاحبزادے جناب ملا یعقوب جو موجودہ افغان حکومت میں وزیرِ دفاع ہیں، انھوں نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ ایمن الظواہری پر امریکی ڈرون حملے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کی گئی۔ الزام لگاتے ہوئے انھوں نے کوئی ثبوت نہیں پیش کیا۔ اس بیان میں افغان وزیرِ دفاع جناب ملا یعقوب نے مزید کہا کہ وہ اپنے فوجیوں کو بھارت میں تربیت دلوائیں گے۔ یہ وہی افغان طالبان ہیں۔
بھارت جن کے خلاف امریکی افواج اور اشرف غنی حکومت کی سپورٹ کرتا رہا ہے۔ اب صرف پاکستان کے خلاف اپنی نفرت دکھانے اور پاکستان کو Exploitکرنے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ افغان فوجیوں کو بھارت میں تربیت دلوائی جائے گی۔
دبئی اور شارجہ میں منعقد ہونے والے حالیہ ایشیا کرکٹ کپ مقابلوں میں افغانوں کی پاکستان کے خلاف مخاصمت مزید کھل کر سامنے آ گئی۔ افغان کرکٹ ٹیم میں زیادہ تر وہ کھلاڑی ہیں جن کے بڑوں کی بود و باش پاکستان میں ہوئی۔یہ اُن چالیس لاکھ سے اوپر افغان مہاجرین کی اولاد ہیں جو روسی حملے کے بعد اپنی جانیں بچا کر پاکستان آ گئے تھے۔روسی اور بعد میں امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد بھی یہ نام نہاد مہاجرین پاکستان سے جانے کا نام نہیں لیتے ۔یہ اس لیے افغانستان نہیں جانا چاہتے کیونکہ اگر وہاں جائیں تو کاروبار اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے غربت و افلاس سے پالا پڑتا ہے۔
افغان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستان کی سرزمین پر ہی بیٹ اور گیند ہاتھ میں پکڑنی سیکھی۔افغان ٹیم بھارت سے بھی ہاری لیکن کسی ردِ عمل کا اظہار نہیںکیا،البتہ پاکستان سے میچ کے دوران ہمارے شاہینوں سے الجھتی بھی رہی اور جب پاکستان نے افغانستان سے میچ جیت لیا تو افغان تماشائی آگ بگولہ ہو گئے۔ اسپورٹس مین اسپرٹ تو دور کی بات ہے لیکن یہ بنیادی اخلاقی اقدار کے بھی خلاف ہے۔
اسٹیڈیم میں کرسیاں اٹھا اٹھا کر پاکستانی تماشائیوں پر پھینکتے اور حملے کرتے رہے۔ان کی زبان سے پاکستان کے خلاف گندی گالیاں نکل رہی تھیں۔شارجہ کی انتظامیہ نے کیمرہ شارٹس کی مدد سے 138افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تو معلوم ہوا کہ گرفتار افغانیوں میں سے اکثریت کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہیں۔
کیا یہ انتہائی دکھ کی بات نہیں کہ پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر بیرونِ ملک روزگار حاصل کرنے والے پاکستان کو گالیاں دیں اور پاکستانیوں پر حملے کریں۔ ہم نے جن کی مدد کرنے کے لیے اپنی نسلوں کو منشیات کی بھٹی میں جھونک دیا،جن کے چپڑاسی سے لے کر صدر تک کی تنخواہ دیتے ہوئے اپنے ملک کو کنگال کر لیا،آئے دن خود کش حملوں کا نشانہ بنے،معصوم جانیں گنوائیں،وہ پاکستان کو گالیاں دیں، پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کریں اور ہم انھیں اپنا مسلمان بھائی کہیں۔سمجھ نہیں آتی، ہم پاکستانی ایسے کیوں ہیں۔