169

امداد بٹتی نظر نہیں آرہی! علی احمد ڈھلوں

اس وقت عالمی برادری کے اعلانات کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد کے اعداد و شمار اکٹھے کریں تو پانچ سو ارب روپے سے زائد کی نقد اور 2سوارب روپے کے سامان کی شکل میں امداد اکٹھی ہوچکی ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دورہ پاکستان کے بعد کئی ممالک سے امداد کا سلسلہ جاری ہے۔

2008میں چین کے صوبہ سیچوان میں 7.9 ریکٹراسکیل کا زلزلہ آیا جس میں 70ہزار افراد مارے گئے،اور 6لاکھ گھر مکمل تباہ ہوگئے۔ لیکن چینی حکومت نے ایک ہفتے میں ان تمام بے گھرافراد کی عارضی رہائش کا بندوبست کیا اور اگلے ایک مہینے میں انھیں ناصرف گھر بنا کر دیے بلکہ انھیں فنانشل سپورٹ بھی کیا اور جن کے کاروبار متاثر ہوئے انھیں ٹیکس چھوٹ کے علاوہ مالی امداد اور بغیر سود کے قرضے بھی دیے۔

2019-20میں آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگی اور 46ملین ایکڑ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ آگ کئی دن تک جاری رہی اور اس میں 400افراد لقمہ اجل بنے اور جنگلات کے کاروبار سے جڑے 90ہزار افراد بری طرح متاثرہوئے۔ حکومت نے آگ بجھنے کے ایک ہفتے میں تمام متاثر افراد کا ڈیٹا جمع کیا، انھیں عارضی کیمپوں میں منتقل کیا اور 2ماہ کے اندر اندر انھیں دوبارہ سیٹل ہونے میں ہر قسم کی مدد فراہم کی۔

پھر2017ء میں امریکا میں ’’ماریہ‘‘ نامی سخت طوفان آیا جس نے کئی ریاستوں کو لپیٹ میں لے لیا، لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست پورٹو ریکو تھی جہاں 100ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، 4لاکھ گھر سرے سے ہی تباہ ہوگئے اور 10لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ امریکی حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی اور ایک ہفتے کے اندر اندر ٹرانسپورٹ اور بجلی بحال کرکے اُن گھروں کی تعمیر کا کام شروع کروادیا جنھیں طوفان نے لپیٹ میں لیا تھا۔

دوسرے مرحلے میں اسکول، کالجز کو کھولا گیا جب کہ ایک مہینے کے اندر اندر نظام زندگی کو نارمل کرنے میں امریکی حکومت پیش پیش نظر آئی۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان میں سیلاب کو آئے ہوئے ڈیڑھ دو ماہ ہوچکے ہیں اور ابھی تک بحالی کا کام شروع نہیں ہوسکا۔ ایک منظم نظام موجود نہیں ہوگا تو موقع پرست لوگ آگے آئیں گے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے ساڑھے تین لاکھ افراد بھی بحال نہیں ہوسکے۔

ہاں! کہیں کہیں نجی تنظیمیں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پیش پیش نظر آرہی ہیں مگر سرکاری سطح پر ابھی تک ڈیٹا بھی اکٹھا نہیں کیا جاسکا کہ متاثرین میں کتنے خاندان، کتنے افراد اور کون کون سے گاؤں، قصبے یا شہر متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت شاہ لطیف کے سندھ کی بستیاں غرقاب ہیں۔ گوٹھ مٹ رہے ہیں۔ شہباز قلندر کی نگری کو منچھر کے پانی نے گھیر لیا ہے۔ سندھو ندی بپھری ہوئی ہے۔

کراچی،لاہور،حیدرآباد،پشاور،ملتان،کوئٹہ، سیالکوٹ اور نہ جانے کہاں کہاں ہمیںامدادی سامان سے بھرے اسٹال و کیمپ نظر آرہے ہیں۔ ایئرپورٹوں پر جہاز اتر رہے ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں کے پرچموں کے نشان اوربڑے بڑے کنٹینر لیے۔ یہ نظارے دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ چارہ گری ہورہی ہے لیکن جب سیلاب زدگان کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔چاہے وہ جنوبی پنجاب ہو، بلوچستان، اندرون سندھ، خیبر پختونخوا۔ وہاں سے یہی صدائیں آتی ہیں۔’’ابھی تک کوئی نہیں آیا۔‘‘ قابلِ ستائش ہیں وہ اخباری، ٹی وی رپورٹر جو کتنی مشکلوں مصیبتوں سے ان دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔

وہ خود بھی اپنے ان جفاکش ہم وطنوں کی بے چارگی، بے سرو سامانی دیکھ رہے ہیں۔ یہ رپورٹر، کیمرہ مین جب وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ تو حکومتیں یا امدادی سامان بانٹنے والی فلاحی تنظیمیں وہاں تک کیوں نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ان تنظیموں کی جانب سے روزانہ رپورٹیں کیوں جاری نہیں کی جاتیں؟یہ سوال ہر اس پاکستانی یا سمندر پار پاکستانی کے ذہن میں تڑپ رہا ہے کہ وہ جو نقد رقم عطیہ کررہا ہے۔ امدادی سامان دے رہا ہے۔ دوائیں پہنچارہا ہے۔ وہ اس کے حقدار ہم وطنوں تک کیوں نہیں پہنچ رہیں؟

بہرکیف میں پھر یہی کہوں گا کہ حکومت ایک ایسا سسٹم بنائے جس پر دنیا اعتبار کرے، ایک ایسی ویب سائیٹ یا ڈیٹا بیس ترتیب دے جو دنیا کے ساتھ شیئر کیا جاسکے کہ 3کروڑ افراد میں سے اتنے افراد کی بحالی ہو چکی ہے اور کتنے رہ گئے ہیں۔

پھر اس پورٹل پر بتایا جائے کہ غذائی بحران پیدا ہونے والا ہے، اُس کے لیے دنیا سے گندم چاول کی اپیل کی جائے، کیوں کہ آج کل میں ہی ان علاقوں میں ایک بڑا مسئلہ غذائی بحران پیدا ہونے والا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے سبزیاں اور اناج منگوانے کی کاوشیں جاری ہیں جب کہ اندرون ملک وسیع رقبہ زیر آب آنے کے باعث نئی فصلوں کے لیے زمین کی مطلوب دستیابی بھی توجہ طلب ہے۔

اس منظر نامے میں گلوبل فلاحی ادارے عالمی برادری کے زیادہ موثر،فوری اور سرگرم کردار کی ضرورت اجاگر کر رہے ہیں۔جب کہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً دو کروڑ 10لاکھ ایکڑ اراضی زیرآب ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملکی فوڈ باسکٹ یعنی چاول اور گیہوں جیسی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ 7لاکھ 33ہزار سے زائد مویشیوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔

لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور حکومت ان علاقوں میں بڑے بڑے ریلیف کیمپ آفسز بنائے جہاں ان متاثرہ افراد کو رجسٹر ڈکیا جائے تاکہ امداد صحیح انداز میں صحیح لوگوں تک پہنچ سکے ورنہ یہ سب بھوک، عزت اور شرم سے مرجائیں گے!