سیلاب نے چاروں صوبوں کے شہروں اور دیہی علاقوں کے درمیان فرق مٹا دیا۔ خیبر پختون خوا ، بلوچستان ، پنجاب اور سندھ میں سیلاب نے زرعی زمینوں کو دریا اور ندیوں میں تبدیل کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا تین چوتھائی علاقہ پانی سے متاثر ہوا۔ پانی نے کھڑی فصلوں کو تباہ کیا اور لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی ڈوب گئے۔
اب تک سرکاری طور پر مرنے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ فصلوں کے تباہ ہونے سے سبزیاں، گندم اور پھل منڈیوں سے لاپتہ ہوگئے۔ پیاز، آلو، ٹماٹر ، مرچیں اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں اور بہت سے شہروں میں یہ سبزیاں نایاب ہوگئی ہیں۔ کراچی میں انڈے اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ سردیوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
جن علاقوں میں چاول اگتا ہے وہ بھی تباہی کا شکار ہیں۔ حکومت نے سبزیوں ، پھلوں اور کھانے کے تیل کی قلت پر قابو پانے کے لیے بھارت سے واہگہ کے راستہ سے اشیاء درآمد کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا مگر اس فیصلہ کا نوٹی فکیشن جاری نہ ہوسکا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ تاریخ کا حصہ ہے مگر جس طرح عمران خان کی حکومت نے ان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی اور ملک کے مفاد کو نظرانداز کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان ، سعودی عرب کے ولی عہد کے طیارہ میں امریکا گئے ، سابق صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارتی وزیر اعظم مودی سے بات کریں گے۔ عمران خان نے ملائیشیا اور ترکی کی کوششوں سے ہونے والی کانفرنس کی حمایت کردی۔ سعودی ولی عہد عمران خان کے اس یوٹرن پر ناراض ہوئے۔
عمران خان جب نیویارک سے طیارے میں سوار ہوئے تو سعودی حکام نے شاہی طیارہ واپس بلانے کے احکامات جاری کیے۔ طیارہ واپس نیویارک ایئرپورٹ پر اترا۔ نیویارک ایئرپورٹ پر کوئی پروٹوکول افسر عمران خان کو ریسیو کرنے نہیں آیا تھا۔ بعد میں عمران خان ایک کمرشل فلائٹ سے واپس آئے۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے قائد کے دورہ کو کسی پاکستانی سربراہ کا کامیاب ترین دورہ قرار دیا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ سے جلوس نکالا اور عمران خان کے اس کارنامہ کو 92ء میں ورلڈ کپ کی جیت سے زیادہ کامیاب قرار دیا۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے کشمیر کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کر دی۔ بھارتی یونین کے آئین کی شق 370 ختم کردی گئی۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان مودی کے اس اقدام کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وقت تھا جب سعودیہ اور یو اے ای نے بھارت سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔
سعودی عرب اور یو اے ای نے سری نگر اور اطراف کے علاقوں میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ ریلوے کے سابق وزیر شیخ رشید جو نفرت پھیلانے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں انھوں نے بھارت سے آنے والی ریل سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ حکومت پاکستان نے بھارت سے تمام قسم کی تجارت پر پابندی عائد کردی۔ عمران خان کی معاشی ٹیم نے اتنے اہم فیصلے کرتے ہوئے اس بات پر غور نہیں کیا کہ تجارت بند ہونے سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوگا۔
بھارت سے ادویات کی تیاری کے لیے خام مال، آئی ٹی اور طبی آلات وغیرہ درآمد ہوتے تھے۔ پاکستان میں دوا ساز کمپنیاں جو ادویات بناتی ہیں ان کے لیے سستا خام مال بھارت سے آتا تھا۔ بھارت ، ایشیا اور افریقہ میں ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت سے کتے کے کاٹنے کے مرض کی روک تھام کے لیے سستی ویکسین درآمد ہوتی تھی۔ جان بچانے والی ادویات سستے داموں ملتی تھیں ، جب پاکستان میں سال کے خصوصی حصوں میں ٹماٹر ، پیاز اور لہسن وغیرہ کی قلت ہوتی تو بھارت نے سستی اشیاء دستیاب ہوتیں۔ پاکستان کا کیلا اور کھجوریں بھارت میں خاصی شہرت رکھتی ہیں۔
آم اور سیب وغیرہ بھی بھارت برآمد کیے جاتے تھے۔ اچانک تجارت بند ہونے کے زیادہ نقصانات پاکستان کو ہوئے۔ سابقہ حکومت نے مجبوراً جان بچانے والی ادویات اور ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دی۔ سابقہ تحریک انصاف کی حکومت میں صحت کے سابق مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا جنھوں نے کورونا کے مرض پر قابو پانے کے لیے کامیاب حکمت عملی مرتب کی تھی وہ بھارت سے ادویات کی درآمد کے اسکینڈل کی بناء پر مستعفی ہوئے۔ جب سیلاب نے ملک میں موجود فصلوں کو تباہ کیا تو سبزیوں اور دیگر اشیاء کی قلت پر قابو پانے کے لیے بھارت سے ڈیوٹی فری اشیاء درآمد کرنے کی تجویز منظر عام پر آئی۔
مختلف تجارتی رویوں کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب حکومت پاکستان نے بھارت سے تجارت پر پابندی لگائی تو تاجروں نے متحدہ عرب امارات کے ذریعہ تجارت کا راستہ تلاش کیا، یوں اشیاء کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ایک بڑے انگریزی کے اخبار کے اقتصادی رپورٹر نے لکھا ہے کہ پاکستان نے 4 اگست 2019 کو بھارت سے تجارت پر پابندی عائد کی۔ اسلام آباد میں وزارت تجارت نے 2 ستمبر 2019 کو دو نوٹی فکیشن کے ذریعے بھارت سے ادویات کی تجارت پر عائد پابندی ختم کردی۔
اعداد و شمار کے قومی بیورو Pakistan Bureau of Statistics کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت نے مار چ سے جولائی 2021-22 کے دوران 0.0021 ملین ڈالر کی اشیاء برآمد کیں۔ بھارت خام منرل Crude minerals، میڈیکل اور سرجیکل آلات پاکستان کو درآمد کرتا ہے۔ بھارت کے شہر چندی گڑھ کے بلاگر ایم ایس بدی کا کہنا ہے کہ پاکستان دبئی کے راستہ اشیاء درآمد کرتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے شہر چندی گڑھ میں پیاز کی خام قیمت 69 روپے فی کلوگرام ہے۔ اسی طرح ٹماٹر 83 روپے فی کلوگرام اور آلو 69 روپے فی کلوگرام دستیاب ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تھوک میں ان اشیاء کی خریداری سے قیمت میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔ دبئی کے راستہ ان اشیاء کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ایک اور حقیقت سامنے آئی کہ یو اے ای اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ یو اے ای سے تجارت کا حکم 10بلین ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ پاکستان واہگہ کے راستہ بھارت سے تجارت کی اجازت دے گا تو اس سے ملک کا قیمت زرمبادلہ بچے گا۔ کتابوں کے عاشق مظہر عباس کہتے ہیں کہ بھارت سے کتابوں کی اشاعت کی اجازت دی جائے اور تمام ٹیکس ختم کرنے چاہئیں تاکہ پاکستان میں سستی اور معیاری کتابیں مل سکیں۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ بھارت کی 90 سالہ خاتون کی راولپنڈی میں اپنا بچپن کا گھر دیکھنے اور ایک رات اس گھر میں گزارنے کی خواہش پوری ہوئی۔ بھارت سے امن کا دنیا بھر میں پرچار کرنے والے تین نوجوان پاکستان آئے جہاں انھیں محبتوں کا تحفہ ملا۔ دبئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کے اختتام پر محمد رضوان اور ہردیک پانڈیا نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور جس سے عمران خان اور کپل دیو کے گرم جوشی سے ملنے کی تاریخ دہرا دی گئی مگر محض تجارت ہی نہیں دونوں ممالک کے درمیان ریل ، بس اور ہوائی راستے بھی بحال ہونے چاہئیں۔ دونوں ممالک کے اپنے اپنے ہائی کمیشن میں عملہ کو بڑھانے اور عوام کے عوام کے درمیان رابطوں میں رکاوٹوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
بقول بلاول بھٹو پڑوسی تبدیل نہیں ہونگے، مگر دونوں ممالک کے درمیان عوام کے رابطوں سے مذہبی انتہا پسندی کم ہوسکتی ہے اور کشمیر کے مسئلہ کا حل بھی تلاش ہوسکتا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھارت سے ڈیوٹی فری اشیاء کے زبردست حامی ہیں۔ لاہور کے تاجر بھی اس تجویز کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں مگر شاید آسمانوں سے بجلی گرانے کی صلاحیت رکھنے والی قوتیں ابھی کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ پائی ہیں ، جس کا نقصان عوام کو ہورہا ہے۔ عوام کے مفاد میں بھارت سے تجارت فورا شروع ہونی چاہیے۔