وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نے وزیر اعظم فلڈ ریلیف فنڈ کا آڈٹ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) اور عالمی معیارکی آڈٹ فرم سے کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فلڈ ریلیف فنڈ میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ کتنا پیسہ آیا اور کہاں خرچ ہوا، ان آڈٹ رپورٹس کو پبلک کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں وزیر اعظم نے نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی) قائم کردیا جس کے چیئرمین وزیر اعظم ہوں گے، جب کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ڈپٹی چیئرمین ہوں گے۔ ملک بھر میں شدید بارشوں اور پھر سیلاب کی تباہ کاریوں نے اس وقت پوری قوم کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دریاؤں کی طغیانی نے قرب و جوار کی آبادیوں اور کھیتوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، وسیع پیمانے پر انسانی جانی و مالی نقصان کا سلسلہ جاری ہے۔
تازہ ترین میڈیا اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت نے سیہون اور بھان سعید آباد کو بچانے کے لیے منچھر جھیل میں کٹ لگادیا ہے ، جس کے بعد متاثرہ افراد کی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ کٹ لگانے سے ایک لاکھ 25 ہزار افراد شدید متاثر ہوں گے۔
ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ سکھر بیراج سے پانچ لاکھ 59ہزار998کیوسک کا بڑا ریلا کوٹری بیراج میں داخل ہوگیا۔ پانی کی سطح میں اضافے کے باعث کچے کے سیکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں۔ خانپور ڈیم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہونے پر اسپل ویزکھول دیے گئے۔ دریائے سوات کے کنارے آباد ایک ہی خاندان کے چودہ گھر سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے۔ ملک بھر سے انتہائی افسوسناک خبریں ہی آرہی ہیں ۔
سیلابی صورتحال کے بارے میں فلڈ ریلیف کیمپ بھی قائم ہیں جو متاثرین سیلاب کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں، مقامی اور ملکی سطح پر کام کرنے والی این جی اوز اور رفاعی و فلاحی ادارے بھی اپنے طور پر سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہیں جہاں ان کو خوراک مہیا کی جا رہی ہے وہیں وبائی امراض میں مبتلا لوگوں کو مفت ادویات بھی مہیا کی جا رہی ہیں لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود متاثرین سیلاب کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے دور اپنے مختصر سے سامان اور کنبہ کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت بھی زندگی کے دن گزار رہے ہیں کیونکہ ان دریاؤں کے بپھرنے سے ان کے گھر کھیت کھلیان پانی کی زد میں ہیں اور وہ اپنی زندگی بچا کر اب دریا کے پانی کے کم ہونے کے منتظر ہیں، تاکہ پانی خطرے کے نشان سے کم ہو اور وہ ایک بار پھر اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔
وزیراعظم شہباز شریف بھی روزانہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں ، سیلاب زدگان کو ریلیف پہنچانے کی غرض سے انھوں نے امدادی پیکیجز کا اعلان بھی کیا۔ سیلاب سے تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کے لیے 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے اور جن گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ، ان کو 2 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ رقم دی جائے گی۔ بلوچستان حکومت بھی سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے امداد دے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب سے جو فصلیں تباہ یا مویشی ہلاک ہوئے‘ ان کا تخمینہ لگانے کے لیے کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں۔ وفاق کی سطح پر بنائی4کمیٹیاں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں سے مشاورت کے ساتھ سروے کریں گی۔
بارشوں اور سیلاب نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں پانی سے پیدا ہونے والی مہلک بیماریوں کے مزید تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے ۔ سیلاب کی تباہ کاریاں اپنا اثر ضرور چھوڑ جاتی ہیں کہنے کو تو سیلاب ہے مگر سیلاب ہمیشہ تباہی مچا کر ہی جاتا ہے۔ سیلاب کی زد میں آئی کوئی چیز نہیں بچتی۔ خواہ زمین ہو مکان ہو، جانور ہوں یا انسان ہوں ، سیلاب کچھ بھی باقی نہیں چھوڑکر جاتا۔ سیلاب اپنے پیچھے ایسے خوفناک اور ہولناک منظر چھوڑ کر جاتا ہے کہ جسے سوچ کر اور دیکھ کر انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے اور اگر کسی کے اپنے لخت جگر یا بہن بھائی ، رشتہ دار اس سیلاب کی نذر ہو کر پانی میں بہہ گئے ہوں تو یہ ہولناک صدمہ زندگی بھر نہیں بھولتا۔بقول باقی صدیقی ؎
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
سیلاب کے متاثرین کئی سالوں تک سنبھل نہیں پاتے کیونکہ سیلاب نقصان ہی اتنا کر جاتاہے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی پورا نہیں کر پاتا۔ کوئی بستی جب چاروں طرف سے پانی میں گھر جائے اور کوئی وہاں کسی کی مدد کو نہ پہنچ پائے تو یہ قیامت نہیں تو اور کیا ہے۔ پانی میں گھری بستی کے لوگ کس کو پکار سکتے ہیں کس سے اپنی داد فریاد کر سکتے ہیں کون اس حالت میں ان کی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔ کون ان بے بس اور مجبور لوگوں کو کھانا پہنچا سکتا ہے ، کون ایسی حالت میں ان کو دوا دارو کی خاطر ڈاکٹر کے پاس لے جا سکتا ہے، تمام راستے اور تمام رابطے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔
یہ سارا منظر نامہ انسانی المیے کو جنم دیتا ہے۔ بعض دفعہ لوگ اپنے گھروں سے جانیں بچا کر اپنے گھروں کا سامان سروں پر اٹھائے ہوئے اور اپنے بچوں کو کاندھوں پر بٹھائے ہوئے اور گلے گلے تک پانی میں ڈوبے ہوئے پانی میں چلتے وقت زہریلے سانپوں اور دوسرے موذی جانوروں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان لوگو ں کو موت نے دو طرح سے گھیرا ہوتا ہے ایک تو گھروں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے جانیں بچا کر پانی سے گزر کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے بد قسمتی سے زہریلے سانپ بچھو حملہ کر دیتے ہیں۔
یہ بد قسمت لوگ جائیں تو کہاں جائیں۔ ان غریبوں کی کھڑی فصلیں سیلابی پانی میں بہہ جاتی ہیں۔ اب یہ غریب اور مجبور بے سہارا لوگ اپنی کون کون سی بدنصیبی کا رونا رویں۔ اپنے مکانوں کا رونا رویں، اپنی زمینوں کا رونا رویں۔ اپنی فصلوں کا رونا رویں یا اپنی جانوں کا رونا جو ابھی تک کھلے آسمان تلے بے یارو مدد گارخدا کے سہارے پڑے ہیں جہاں ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، ان کے علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے یہ اپنا سب کچھ لٹا کر کسی مسیحا کے انتظار میں آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی ہمیں آکر یہ تو پوچھے کہ کتنے دنوں سے کچھ نہیں کھایا ، کیسے گزارا کرتے ہو۔ سیلاب اور بارشوں نے کئی علاقوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے، مکانات منہدم ، کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے اور رابطہ سڑکیں شدید متاثر ہوئی ہیں ، مختلف سڑکیں بہہ جانے کی وجہ سے آمدورفت ممکن نہیں رہی جس کی وجہ سے درجنوں دیہات میں لوگ محصور ہو چکے ہیں اور خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ حکومت کو سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کیمپ لگانے چاہئیں تاکہ جو لوگ اپنی مصروفیات کی وجہ سے سیلاب زدگان تک نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے فنڈز اور سامان ان کیمپوں میں پہنچا دیں تاکہ وہاں سے پھر حکام کی نگرانی میں اکٹھا کیا گیا سامان سیلاب زدگان تک پہنچایا جا سکے۔
تاہم ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں شفافیت کو برقرار رکھا جائے تاکہ حقیتاً حق بہ حق دار رسید والا معاملہ ہو سکے۔سب مصیبت کی اس گھڑی میں متاثرین کی مدد کر کے ان کی بحالی میں خیبر تا مہران یکجان ہو کر کام تو کر سکتے ہیں کہ یہی وقت کا تقاضا ہے اور زندہ قوموں کی پہچان بھی۔ یہ بھی حقیقت ہے ہر مشکل گھڑی میں عوام نے مشکلات میں گھرے لوگوں کی تن من دھن سے مدد کی ہے اور اب بھی بارشوں اور سیلاب سے متاثرین کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہوں گے جو کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار مدد کے منتظر ہیں۔
جاپان میں زلزلے بے تحاشا آتے ہیں اور امریکا میں ہر سال سمندری طوفان آتے ہیں لیکن پہلے سے کی گئی تیاریوں کی وجہ سے نہ تو وہاں جانی نقصان اتنا زیادہ ہوتا ہے اور نہ ہی مالی نقصان کہ ناقابلِ برداشت ہو جائے، ہمیں بھی ایسی ہی تیاریوں کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاسی معاملات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کسی دوسرے ایشو کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ضروری ہے کہ سیلابوں اور دوسری قدرتی آفات کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جائے، اگر ایک بڑا ڈیم سیلابوں سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے تو اس بارے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
محکمہ موسمیات کو جدید بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ موسموں کے حوالے سے قبل از وقت ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کر سکے اور اگر شدید بارشوں کی پیش گوئی ہو تو جن علاقوں میں سیلاب آنے کا خطرہ ہو وہاں سے لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کو نکالنے کے لیے بروقت کام ہونا چاہیے ان کے ڈوب جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ مقامی اور ملکی سطح پر کام کرنے والی این جی اوز اور رفاعی و فلاحی ادارے بھی اپنے طور پر سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہیں جہاں ان کو خوراک مہیا کی جا رہی ہے وہیں وبائی امراض میں مبتلا لوگوں کو مفت ادویات بھی مہیا کی جا رہی ہیں لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود متاثرین سیلاب کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے دور اپنے مختصر سے سامان اور کنبہ کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت بھی زندگی کے دن گزار رہے ہیں کیونکہ ان دریاؤں کے بپھرنے سے ان کے گھر کھیت کھلیان پانی کی زد میں ہیں اور وہ اپنی زندگی بچا کر اب دریا کے پانی کے کم ہونے کے منتظر ہیں تاکہ پانی خطرے کے نشان سے کم ہو اور وہ ایک بار پھر اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔