میں عمران خان کے بارے میں بہت کم لکھتا ہوں کیونکہ میرے بہت سے کالم نگار دوست یہ نیک کام کر رہے ہیں۔ آج کا کالم کپتان کی بیان بازیوں کے بارے میں ہے‘ جن پر بہت کم لکھا گیا ہے‘ سب سے پہلے خان صاحب کے اچھے برے کی تمیز کے بارے میں چند حقائق۔
خان صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے ایجنسیوں نے بتایاکہ نواز شریف‘ زرداری سمیت تمام سیاستدان جو تحریک انصاف میں نہیں ہیں‘ وہ چور ہیں‘ تو میں فوراً مان گیا کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے لیکن جب ایجنسیوں نے مجھے یہ بتایا کہ پنکی اور گوگی ہیرے کی انگوٹھی اور بھاری رشوت لے کر ٹرانسفر‘ پوسٹنگ اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو NOC جاری کراتی ہیں تو میں نے یقین نہیں کیا کیونکہ ان کو اتنا پتہ نہیں جتنا مجھے ہے۔
جب ایجنسیوں نے مجھے بتایا کہ سلمان شہباز نے چائنہ سے کمیشن لی تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ سچ ہے لیکن جب عثمان بزدار‘ پرویز خٹک اور فرح گوگی کے بارے میںبتایا تو میں نے یقین نہیں کیا ‘جب سفیر کا خط آیا تو میں نے یقین کر لیا کہ امریکا نے سازش کی ہے لیکن جب ایجنسیوں نے بتایا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی‘ تو میں نے یقین نہیں کیا۔ جب پاناما پیپرز نے نوازشریف کی چوری کی رپورٹ جاری کی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ نواز شریف چور ہے لیکن جب فنانشل ٹائمز اور پنڈورہ لیکس کی رپورٹ آئی‘ تو مجھے لگا کہ یہ جھوٹ ہے۔
جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ فیصلہ درست اور الیکشن کمیشن غیرجانبدار ہے لیکن جب الیکشن کمیشن نے میرے خلاف فیصلہ دیا‘ حساب مانگا‘ تو مجھے پتہ لگا کہ یہ تو جانبدار ہے‘ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر سازش کر رہے ہیں‘ جب ایم کیو ایم‘ باپ اور (ق) لیگ میرے ساتھ ملے تومجھے یقین ہوگیا کہ یہ محب وطن اور نفیس لوگ ہیں لیکن جب مجھے چھوڑ کر PDMکے ساتھ گئے تو پتہ چلا کہ یہ تو غدار ہیں‘جب جہانگیر ترین اپنا جہاز بھر بھر کر آزاد اراکین کو لایا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ سب ایماندار‘ مخلص اور جمہوری لوگ ہیں لیکن جب انھوں نے PDMکا ساتھ دیا تو پتہ چلا کہ یہ تو لوٹے ہیں‘ جب ادارے مجھے اقتدار میں لائے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ محب وطن ہیں لیکن جب مجھے نکالا تو معلوم ہوا کہ ان کا کردار تو جانوروں‘ میر صادق اور میر جعفر کی طرح ہے۔
ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ غیرجانبدار یا ’’نیوٹرل‘‘ تو جانور ہوتا ہے‘ اگر انسان ہے تو عمران خان کا ساتھ دیتا ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند سے پتہ لگتا ہے کہ عمران خان بہت زیادہ دور اندیش ہیں‘ اب یہ پتہ لگانا کہ وہ آخر چاہتے کیا ہیں‘ حکومت میں تو آ نہیں سکتے کیونکہ پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے‘ تو پھر الیکشن کے انتظار کے بجائے تحریک کس لیے؟ کیا خوامخواہ پارٹی کارکنوں کو ویسے ہی تھکا رہے ہیں یا ان کا کوئی مطالبہ بھی ہے؟
چند دن قبل انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ’’اب بھی وقت ہے کہ نیوٹرلز اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں،کیا انھیں ملک کی کوئی فکر نہیں؟آپ جتنا بھی اپنے آپ کو نیوٹرل کہیں‘ تاریخ آپ کو مورد الزام ٹھہرائے گی‘‘۔ اس سے قبل ایک دوسرے خطاب میں انھوں نے دھمکی دی تھی کہ ’’اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ ہوجائے گی‘ ایٹمی اثاثے چھن جائیں گے اور پاکستان کے تین ٹکڑے ہوجائیںگے‘‘ یعنی پاکستان صرف عمران خان ہی چلا سکتا ہے۔
پچھلے 75 سال تو ملک کو سیاستدان نہیں بلکہ ‘خان صاحب کی روح اس ملک کو قائم و دائم رکھے ہوئے تھی۔ عمران خان کے دشمن بھی بے شمار ہیں‘ ان کی تقاریر اور بیانات سے پتہ لگتا ہے کہ خان صاحب کی نظر میں سب سے بڑے دشمن نواز شریف‘ شہباز شریف‘ زرداری‘ بلاول‘ مریم نواز اور ہر وہ فرد ہے جو ان کی حمایت نہیں کرتا بلکہ مخالف پارٹی اور حکومت کا بندہ ہو‘ اسلام آباد پولیس اور جج محترمہ زیبا چوہدری سے لے کر امریکی حکومت اور صدر امریکا جو بائیڈن تک سب ان کے دشمن ہیں اوراسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت تک دشمن ہے‘ جب تک ان کو دوبارہ اقتدار میں نہیں لاتی۔ الیکشن کمیشن‘ عدالتیں‘ میڈیا‘ صحافی اور ریاست کے تمام ادارے بھی نیوٹرل نہ رہیں بلکہ میری حمایت کریں‘ میری حمایت کے راستے میں اگر کوئی قانون‘ آئین‘ ضابطے اور کوئی دوسری چیز حائل ہو تو ان کو توڑ کر میرے پی سی او پر سجدہ ریز ہوجائیں۔
اقتدار کے لیے اتنی بے چینی اور دیوانہ پن کسی دوسرے سیاستدان میں نہیں دیکھا‘ ان کی نیوٹرل کو بار بار دھمکی سے مجھے ولی خان کی ایک بات یاد آگئی۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی تھی اس لیے وہ انڈرگراؤنڈ کام کرتی تھی‘ عوام میں اپنا پیغام پہچانے کے لیے وہ کسی قانونی پارٹی (فرنٹ) میں شامل ہوکر کام کرتے تھے‘پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے کوشش کی اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی قوم پرست‘ سامراج دشمن اور ترقی پسند پارٹیوں کو ملاکر نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کی بنیاد رکھی‘ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی اور قوم پرستوں کے درمیان نفرت اور محبت کا کھیل جاری رہا‘ کبھی کسی نظریاتی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو کمیونسٹ سے نکل کر اپنی الگ پارٹی بناتے، پھر کچھ عرصہ کے بعد حالات تبدیل ہوتے تو واپس NAP میں شامل ہوجاتے۔ ولی خان اس عمل سے تنگ آگئے اور ایک دن کہا کہ کمیونسٹوںکی مثال ہمارے بابا گل داد کے بیٹے کی طرح ہے‘ وہ کس طرح، سوال ہوا تو انھوں نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ایک بابا رہتے تھے۔
ان کی بیوی بھی بوڑھی تھی‘ اللہ نے ان کو آخری عمر میں ایک بیٹا دیا تھا جو بہت لاڈلا تھا۔ اس کی ماں نے اپنے بیٹے کا قصہ سنایا کہ صبح اٹھ کر بیٹا کبھی پراٹھا مانگتا ہے اور کبھی کسی اور چیز کی فرمائش کرکے کوئی بہانہ بناکر ناراض ہوکر گھر سے باہر چلاجاتا ہے اور سامنے والی پہاڑی پر پتھروں سے کھیلنے لگتا ہے‘جیسے جیسے سورج اوپر اٹھتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ گھر کی طرف سرکنے لگتا ہے۔
میں کن انکھیوں سے اس کو دیکھتی رہتی ہوں‘ جب دوپہر ہو جاتی ہے تو وہ دروازے تک پہنچ جاتا ہے اور دروازے کو کنکروں سے مارتا ہے‘ اس وقت میں شوہر سے کہتی ہوں کہ لڑکے کو بھوک لگی ہے جاکر لے آؤ‘ بابا باہر جاکر اس کو لے آتا ہے‘ یہ حالت کمیونسٹوں کی ہے‘ اختلافات کی وجہ سے پارٹی سے الگ ہوجاتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر ہمارے دروازے کو پتھروں سے مارنا شروع کرتے ہیں‘ یاد رہے کہ ولی خان بہت بذلہ سنج بھی تھے‘ عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کے دروازے کو کنکرمار رہے ہیں لیکن ابھی تک تو کوئی ان کو واپس لے جانے کے لیے نہیں آیا۔ شاید وہ بھی حقیقت جان گئے ہیں۔