45

پاکستان، عمران خان اور سیاست

پاکستان کی سیاست ایک ایسے ڈھول جیسی ہوچکی ہے جسے جتنا پیٹیں اتنی ہی بلند آواز۔ ہر بیٹ پر نیا ساز، نیا ردھم، تماشائی ہیں کہ جھوم رہے ہیں، ناچ ناچ کے بے حال ہیں، بجانے والے خوب بجا رہے ہیں، کبھی آہستہ تو کبھی تیز بیٹ۔ سیلاب کی شدت بھی اس کی آواز کو کم نہیں کرسکی۔ متاثرین کی آہ و زاری، بچوں کی چیخیں، خواتین کے بین، بزرگوں کے نوحے بھی ان کے آگے مدہم پڑگئے ہیں۔ سرکار کے لہجے میں تلخی آئی ہے تو سب کو ’’خوف‘‘ میں رکھنے والا کہتا ہے ’’میں مزید خطرناک ہوگیا ہوں‘‘۔ آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟

جو 26 سال سے سیاست کررہا ہے، اس کی سیاست میں کوئی درمیانی راستہ نہیں۔ اس کے نزدیک وہ حکومت میں ہے تو سب اچھا ہے، وگرنہ سب برا۔ چوری پکڑی جائے تو اس کے نزدیک ہیرے بھی سستے ہیں، سونا بھی بے معنی ہے۔ فارن ہو یا ممنوعہ فنڈنگ سب حلال ہے۔ اس کا ایک ہی ایجنڈا ہے بس حکومت ملنی چاہیے، چاہے جیسے بھی ملے۔

 

26 سال سے اقتدار میں رہنے والے کہتے ہیں ہم سب سے بیسٹ ہیں، ہم جگہ چھوڑیں گے تو تم اپنا ’’گھونسلہ‘‘ بناؤ گے۔ ان کی کوشش ہے کہ اس کو حکومت سے نکالا ہے تو مقبولیت کم کرنے کےلیے اتنا ذلیل کیا جائے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ جتنا مقدمات میں الجھا رہے تو اچھا ہے۔ بات اب روز پیشیوں تک پہنچ چکی ہے۔ وہ بھی کہتا ہے کہ ہر محاذ پر لڑوں گا۔ جس کا ’’کلہ‘‘ مضبوط ہو وہ ہر ایک سے لڑ جاتا ہے۔ عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اس کا عوام میں رہنا درست فیصلہ ہے۔ اس کا مسئلہ مہنگائی نہیں، اس کا عوام میں رہنا مجبوری ہے۔ گرفتاری اور نااہلی سے بچنے کا صائب راستہ ہے۔ ان سے پہلے نااہل ہونے والا وزیراعظم بھی یہی باتیں کرتا تھا لیکن اس کا ’’کلہ‘‘ کمزور تھا۔ اُس کی بڑھکوں پر عوام ہی نہیں کارکنوں نے بھی ساتھ نہیں دیا تھا۔ ان کی بیٹی نے بھی عوام کا سہارا لیا اور نیب کی پیشیوں سے اب تک بچی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو جب نیب نے نوٹس بھیجے تو انہوں نے عوام کا سہارا لیا، اس کے بعد نہ کوئی نوٹس ملا اور نہ کسی نے بلایا۔ کپتان کو جب بھی خطرہ ہوتا ہے عوام ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس وقت عوام ان کو مشکلات سے بچا رہے ہیں۔

عمران خان کی تحریک کو دیکھیں تو ان کی کسی جگہ انگیجمنٹ ہوتی ہے پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ جب یہ ٹوٹتی ہے تو ان کے بیانات میں سختی آجاتی ہے۔ ان کے گرد قانونی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، کوشش یہی ہے کہ ان کو کسی طریقے سے نااہل کروایا جائے۔ دونوں طرف سے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ حکومت مقدمات کے ذریعے دباؤ بڑھا رہی ہے تو عمران خان جلسوں کے ذریعے دباؤ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر عمران خان کی زندگی کو دیکھا جائے تو جب بھی ان پر پریشر پڑا انہوں نے اچھا پرفارم کیا ہے۔ الیکشن کے اعلان سے پہلے بات کرنے کو تیار نہیں لیکن پارٹی کی بنیاد پر بات چیت ہورہی ہے۔ عمران خان ایک طرف جلسے کررہے ہیں تو سیلاب متاثرین کےلیے سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ آخری حد تک نہیں جارہے۔ انہوں نے اپنے پتے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں، وہ اس وقت تک شو نہیں کریں گے جب تک حکومت آخری حد تک نہیں جائے گی۔

شہباز شریف کے پاس اقلیتی حکومت ہے۔ یہ تذبذب کا شکار ہیں، ان کو لانے والے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہر طرف سناٹا ہے۔ شہباز شریف وزیراعظم لگتے ہی نہیں۔ کسی کو اسمبلی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس وقت مہنگائی پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اتنا کبھی نہیں ہوا۔ قوم اس وقت کنفیوز ہے۔ قوم کو واضح روڈمیپ نہیں دیا جارہا۔ حکومت کی صبح عمران خان سے شروع ہوتی ہے اور شام عمران خان پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس بولنے کو کچھ نہیں۔ مریم نواز خاموش ہیں، ان کی سیاست تب چمکے گی جب عمران خان کو منظرعام سے ہٹادیا جائے۔

عمران خان اور اپوزیشن کی خواہش ہے کہ جلد از جلد انتخابات ہوں لیکن حکومت اس وقت انتخابات کا رسک نہیں لے سکتی۔ مجبوری میں تو کروائے گی۔ جن خامیوں کا تذکرہ عمران خان کی حکومت میں کیا جاتا ہے وہ سب خامیاں اس حکومت میں نظر آتی ہیں۔ دوسری وجہ عمران خان کی مقبولیت ہے، جس کی وجہ سے حکومت الیکشن کروانے کا رسک نہیں لے سکتی۔ حکومت چاہتی ہے مدت پوری کرے یا اس سے آگے تاریخ لے جائے۔ عمران خان حکومت اور اداروں دونوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ عمران خان کو فارغ کرنے کی جو باتیں کی جارہی ہیں اس کو ختم کرنے کےلیے دباؤ ہے۔ عمران خان کا خطرناک ہونے کا پیغام ایک تو حکومت کےلیے ہے، دوسرا اداروں کےلیے، تیسرا اپنی جماعت کےلیے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جتنا جارحانہ بیانیہ ہوگا اتنا ہی عوام میں مقبول ہوگا۔ یہ عوام تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔