56

موسمیاتی تبدیلیوں سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت

چند ہفتے قبل ان سطور میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا لیکن سیلاب کی شکل میں جو کچھ سامنے آیا وہ شاید ہی کسی کے وہم و گمان میں تھا۔

2010 کا سیلاب تباہ کن تھا تو گزشتہ ہفتے آنے والی تباہی کی بھی تاریخ میں پہلے مثال نہیں ملتی۔ بپھرا ہوا پانی ملاکنڈ کے پہاڑوں سے شروع ہوا تو لوگ بلوچستان میں ہونے والی تباہی بھول گئے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع جب سیلاب اور بارش کی تباہی کا شکار تھے تو پوری قوم شہباز گل کے ریمانڈ اور ان پر ہونے والے مبینہ جنسی تشدد میں مصروف تھی۔

 

سیلاب نے پہلے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ سندھ کا دارالخلافہ کراچی تاریخ کی انوکھی بارش میں گھرا ہوا تھا اور سندھ کی حکومت نشانے پر تھی۔ قوم عمرانی سیاست کا ایسا شکار تھی کہ بلوچستان میں جاری امدادی کارروائیوں میں شہید ہونے والے جرنیل اور ان کے رفقاء کو بھی سیاست میں گھسیٹ لائی ۔ جب معاملہ پنجاب تک پہنچا تو پھر قوم کو معلوم ہوا کہ ملک ایک موسمیاتی بحران کا شکار ہے۔ حالانکہ اس سے قبل وزیر اعظم اور آرمی چیف ریلیف کی کارروائیوں کی خود نگرانی کر رہے تھے۔ اگست کے اوائل میں شہباز شریف ڈی آئی خان گئے اور سیلاب سے متاثرہ عوام تک پہنچے۔

عمران خان جن کی اس صوبے میں حکومت ہے ان کو بہت دیر بعد اس وقت خیال آیا کہ جب ملاکنڈ میں سیلاب کی تباہ کاری عروج پر پہنچ گئی اس وقت بھی سوات کے بجائے عمران خان ڈی آئی خان گئے کیونکہ ان کے چہیتے امین گنڈا پور نے انھیں دعوت دی تھی۔

جمعے کے دن جب خیبرپختونخوا حکومت کا جہاز اڑا تو وہ پہلے عمران خان کو لینے بنی گالا گیا حالانکہ عین اس وقت وزیراعلیٰ محمود خان کا آبائی علاقہ سوات مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔ بڑی بڑی عمارتیں سیلاب کے غصہ ور پانی کے سامنے چند سیکنڈ بھی نہ ٹھہر سکیں۔ اس سے ایک روز قبل ہی کوہستان میں 5 دوستوں کے ڈوب جانے کا واقعہ پیش آ چکا تھا۔ کیمرے کی آنکھ کی بدولت سوشل میڈیا اور ٹی وی پر کروڑوں لوگ ان زندگیوں کو بچانے کے عمل کو ناکام ہوتا دیکھ کر اپنے غم کا اظہار کر رہے تھے۔

چار افراد کی بے بسی کے ساتھ پانی میں ڈوبنے کا منظر انتہائی دل دھلا دینے والا تھا۔ لیکن صوبائی حکومت اور ان کے مشران کو سیلاب سے زیادہ اپنے حقیقی آزادی کے جلسوں کے انتظامات کی فکر تھی۔ جمعرات کے دن جب کالام میں پانی کے ریلے آنا شروع ہوئے اس شام بھی عمران خان نے صوبے کے وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو قریباً 3 گھنٹے تک اپنی انتخابی مہم کے حوالے سے مصروف کیے رکھا۔

واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ آدھے گھنٹے کی یہ میٹنگ بعض معاملات پر بحث مباحثے کی وجہ سے کافی لمبی ہو گئی۔قارئین کی یاد دہانی کے لیے کہ خطرناک بارشوں کی پیشن گوئی سال کے اوائل ہی سے کی جا رہی تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس سال خطرناک سیلاب آ سکتا ہے لیکن کسی بھی ادارے نے اس حوالے سے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی۔ فی الحال نقصان کا ابتدائی تخمینہ لگایا جا رہا ہے کیونکہ جب پانی مکمل بیٹھ جائے گا تب ہی اصل نقصان کا اندازہ ہو سکے گا۔ سوات کے علاقوں کالام، مدین اور بحرین میں سڑکیں، پل اور عمارتیں غائب ہو گئی ہیں۔ کئی علاقوں کا رابطہ منقطع ہے۔

سیکڑوں لوگوں کو پاک فوج نے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے نکالا۔ اب نوشہرہ اور چارسدہ کے علاقے پانی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جی ٹی روڈ تک پانی آگیا ہے۔ نوشہرہ میں انتظامیہ نے بروقت اقدام کرکے جانی اور مالی نقصان کو کم کیا۔ 2010 کی بہ نسبت عوام نے بھی انتظامیہ کے احکامات پر عملدرآمد کیا اور پہلے ہی سے ممکنہ سیلاب کے پیش نظر علاقے خالی کر دیے۔ ہمارے کمشنر ریاض محسود کو بھی داد ملنی چاہیے جنھوں نے ورسک ڈیم اور تربیلا ڈیم سے پانی کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنی کاوشیں کیں جس کی وجہ سے ملاکنڈ سے آنے والے پانی کو نکلنے کا راستہ ملا وگرنہ کافی نقصان اور ہو جاتا۔ سندھ اور پنجاب میں سیلاب نے کسان کی جمع پونجی ختم کر دی ہے۔ یہی معاملہ ملاکنڈ اور ڈی آئی خان، چارسدہ اور نوشہرہ کے علاقوں کا بھی ہے۔

صوابی، مردان، چارسدہ میں بارشوں نے تمباکو، مکئی کی فصل کو کافی نقصان پہنچایا۔ سبزیاں مارکیٹ سے غائب ہو گئی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہماری فصلیں کم ہو رہی ہیں اور ان کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن ہر سال اربوں روپے کے موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصان کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جا رہا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے بلین ٹری سونامی کو متعارف کروایا لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پہلے آگ نے صوبے کے جنگلات کو نقصان پہنچایا اور اب سیلاب نے۔ دریاؤں میں آنے والی لکڑی سے خوب واضح ہو گیا کہ جنگلات کی کس بے دریغ طریقے سے کٹائی جاری ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے ہی سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے 350 ڈیموں کی بات کی تھی لیکن صوبے میں ان کی دوسری حکومت بھی اپنا آخری سال پورا کر رہی ہے لیکن ان ڈیموں کو ابھی تک عوام دیکھ نہیں سکی کہ یہ کہاں پر بنے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والی بجلی کو کون کہاں پر استعمال کر رہاہے۔

سوات میں دوبارہ تباہی کی ایک بڑی وجہ دریا کے کنارے آبادی ہے۔ کئی عمارتیں تو ایسی ہیں کہ تیسرے بار دریا برد ہوئیں لیکن تجاوزات کے خلاف درجنوںمہمات اور وزیراعلیٰ کے احکامات کے باوجود دریا کے کنارے آبادی تیزی سے جاری رہی اور پھر دریا کو اپنا انتقام خود لینا پڑا اور اس نے صدیوں سے متعین اپنے راستے کو صاف کر دیا۔ حالیہ سیلاب اور بارشیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

ہمیں موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس کے ساتھ جنگی بنیادوں پر نمٹا ہو گا۔ صرف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے عمارتوں کی تعمیر پر فی الفور پابندی عائد کر دینی چاہیے۔