ایک کالم نگار کے مطابق گجرات کے چوہدریوں کی نئی نسل میں منفرد شہرت پانے والے چوہدری مونس الٰہی نے اپنے حقیقی ماموں، بزرگ سیاستدان اور اپنے سیاسی استاد چوہدری شجاعت حسین کے لیے کہا ہے کہ میں نے اپنے والد سے بڑھ کر ان کی عزت کی کیونکہ وہ مجھے بچہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کرتے تھے اور اہم سیاسی ملاقاتوں میں مجھے لے کر جاتے تھے اور دل کی ہر بات مجھ سے ہی کر لیتے تھے۔ پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد چوہدری شجاعت نے مجھے دو بار فون کیا لیکن میں نے انھیں کال بیک نہیں کی جس کا مجھے افسوس اور بہت تکلیف ہے۔
یہ سیاسی المیہ صرف چوہدری خاندان میں نہیں بلکہ ہر اہم سیاسی شخصیت اور سیاسی خاندانوں میں ہو رہا ہے جہاں سیاست نے خاندان تقیسم کر دیے ہیں، ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس سیاست کے چکر میں خاندان متاثر اور رشتوں میں دراڑیں بڑھ رہی ہیں جس سے ان کی نسلیں بھی متاثر ہوں گی۔
سیاسی پسند و ناپسند اور مزاج مختلف ہونا الگ بات ہے اور ہر ایک کو اپنی پسند کی سیاسی جماعت جوائن کرنے کا حق ہے مگر اس کے باوجود خاندانی وحدت برقرار رہنی چاہیے کیونکہ سیاست سے زیادہ خاندان اور عزت زیادہ عزیز ہونی چاہیے کیونکہ سیاست بدلتی رہتی ہے جب کہ عزت اور خاندان تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔
ملک میں بہت سی سیاسی شخصیات اور خاندان ایسے ہیں جہاں باپ بیٹے، بھائی بھائی، بہن بھائی الگ الگ اپنی سیاسی پارٹیوں میں شامل رہ کر سیاست کرتے رہے ہیں اور اب معاملہ یہاں تک آگیا ہے کہ میاں بیوی کے رشتے بھی سیاست کی نذر ہو رہے ہیں اور سیاست کے باعث حقیقی رشتوں میں خلیج بڑھ رہی ہے اور سیاست میں اب اپنی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور سیاسی مفاد کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے اسد عمر اور مسلم لیگ (ن) کے محمد زبیر دو حقیقی بھائیوں کی مثال لیں کہ اسد عمر وفاقی وزیر تھے تو ان کے بھائی محمد زبیر پر بعض الزامات کے حوالے سے مشکل وقت آیا تھا جسے محمد زبیر نے فیک قرار دیا تھا جس پر اسد عمر کو اپنے بھائی کی خاطر کوئی کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر وہ خاموش رہے، اس معاملے سے محمد زبیر کی فیملی کی عزت نفس جس طرح متاثر ہوئی وہ وہی جانتے ہیں اور اسد عمر نے وفاقی وزیر ہوتے ہوئے اپنے حقیقی بھائی کی مدد نہیں کی تھی۔ سیاست میں عزت نفس کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے ۔
پرویز خٹک کے پی کے کامیاب وزیر اعلیٰ تھے جن کی پالیسی سے ہی پی ٹی آئی صوبے میں دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی مگر پرویز خٹک کو دوبارہ وزیر اعلیٰ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ وہ عمران خان کی ہر بات نہیں مانتے تھے کیونکہ وہ کے پی کے سیاسی معاملات خان صاحب سے بہتر سمجھتے تھے مگر انھیں نظرانداز کیا گیا جو ان کی ناقدری اور بے عزتی تھی مگر انھوں نے وزیر دفاع بننا ہی قبول کرلیا تھا کیونکہ وہ عہدے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ندیم افضل چن پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری تھے جن کے چھوٹے بھائی نے پی ٹی آئی جوائن کی جسے انھوں نے اپنی بے عزتی سمجھ کر پی پی کا عہدہ چھوڑ دیا تھا، پھر وہ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے مگر بے قدری ہونے پر پی پی میں واپس آگئے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بے شمار اصولی اور نظریاتی رہنما ہیں جنھوں نے اپنی پارٹیوں کے نشیب و فراز اور حکومتیں دیکھیں مگر وہ قدر نہ ہونے کے باوجود پارٹی سے مخلص رہے اور دوسری پارٹی میں نہیں گئے۔
ان میں پی پی کے مرکزی رہنما میاں رضا ربانی ایک مثال ہیں جن کو چیئرمین سینیٹ بنائے جانے پر مسلم لیگ (ن) بھی شامل تھی مگر زرداری صاحب نے ان کی قدر نہ کی اور ایک غیر معروف سینیٹر صادق سنجرانی کو چیئرمین منتخب کرلیا تھا جو بعد میں عمران خان سے مل گئے تھے اور عمران خان نے بالاتروں کی مدد سے ان کے خلاف نہ صرف تحریک عدم اعتماد ناکام کرائی تھی جب کہ اپوزیشن کی اکثریت تھی اور بعد میں اپوزیشن کی اکثریت ثابت ہونے کے باوجود ایک منصوبے کے تحت دوبارہ بھی چیئرمین سینیٹ منتخب کرا دیا تھا جس پر خان صاحب بڑے خوش ہوئے تھے۔
محمد میاں سومرو سیاستدان نہیں بینکار تھے جنھیں جنرل پرویز مشرف نے سندھ کا گورنر، پھر چیئرمین سینیٹ اور نگران وزیر اعظم تک بنایا جو بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور 2018 میں وہ اپنے خاندان کے اثر و رسوخ سے جیکب آباد سے ایم این اے منتخب ہوئے تو عمران خان نے انھیں وزیر مملکت بنانا چاہا مگر انھوں نے اپنی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس سے انکار کردیا جس پر وزیر اعظم کو انھیں مکمل وزیر بنانا پڑا کیونکہ انھیں سکھر و لاڑکانہ ڈویژن سے وزیر لینا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ اکثر لوگ سیاست میں آتے ہی وزیر مشیر بننے اور معاون خصوصی تک بننے پر اس لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ عوام کی خدمت سرکاری عہدے کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور سرکاری عہدے ہی کمائی اور ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہ سرکاری عہدوں کو ہی عزت سمجھتے ہیں۔ سرکاری اور سیاسی مفادات کے لیے ہی سیاسی پارٹیاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ اپنی پرانی پارٹی کے سربراہوں کی دن رات خوشامد کرنے والے جب مفاد پورا نہ ہونے پر دوسری پارٹی میں شامل ہو کر جب اپنے سابق قائدین پر تنقید کرتے ہیں تو انھیں ماضی یاد رہتا ہے نہ عزت نفس کا انھیں کوئی خیال آتا ہے بس مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔
فواد چوہدری، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی بھی پارٹیاں بدلتے رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی پی پی دور میں یوسف رضا گیلانی کے وزیر تھے اور اب اپنے سابق وزیر اعظم کو ان کی حیثیت یاد دلا رہے ہیں۔ نواز شریف کی خوشامد میں ریکارڈ رکھنے والا شیخ رشید جب عمران خان سے وفاداری کا دعویٰ کرے تو ایسی سیاست کیا عوام کی خدمت کے لیے ہوگی یا سیاسی مفادات کے لیے؟ یہ سب جانتے ہیں سیاسی مجبوری کہاں تک گرا دیتی ہے۔ خاندان میں پھوٹ ڈلوانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنے سیاسی باپ کیا خاندانی رشتے بھی پامال کر دیے جاتے ہیں ۔