پاکستان کے ہر علاقے پر بارشیں حملہ آور ہُوئی ہیں۔اب بھی رُکنے کا نام نہیں لے رہیں۔آسمان نامہربان ہو گیا ہے۔ کوئی اِسے بدلتے ماحولیات کا انتقام کہہ رہا ہے اور کوئی اِس عذابِ سماوی کو ہمارے گناہوں اور سرکشیوں کا شاخسانہ کہہ رہا ہے۔ فطرت بے رحم ہو گئی ہے۔
برستا پانی طوفانِ نوح بن کر بہت سے ہم وطنوں کا سب کچھ بہا کر ساتھ ہی لے گیا ہے ۔ ندی، نالے اور دریا بپھر کر غصیلے سانپ کی طرح پھنکار رہے ہیں۔خلقِ خدا رحم بھری نظروں سے آسمان کو تک رہی ہے۔سیلابوں کی تباہی اتنی ہمہ گیر اور متنوع ہے کہ خواص و عوام میں امتیازکرنا دشوار ہو گیا ہے ۔ لاتعداد غنی اور خوشحال پلک جھپکتے میں محتاج بن گئے ہیں ۔
بربادی اور تباہی کی Magnitudeاس قدر زیادہ ہے کہ حکومتی وسائل کم اور ماند پڑ گئے ہیں۔ مدد اور اعانت کے منتظر و طلبگار زیادہ ہیں اور دستگیر ہاتھ کم ۔ اتحادی حکومت تو پہلے ہی کوڑی کوڑی کی محتاجی کا اعلان کررہی تھی، اوپر سے ان منہ زور اور سرکش سیلابوں نے حکومت اور حکمرانوں کی استعداد اور توانائی کی قلعی کھول دی ہے۔ حکومت کے خلاف سیلاب زدگان کی پکاریں اور شکایات روز افزوں ہیں ۔ ان سیلابوں نے ہماری زراعت کو جو نقصان پہنچایا ہے، اس کے منفی اور کمر شکن اثرات ابھی چند ماہ بعد ظہور پذیر ہوں گے۔
عوام کی بھی مزید آزمائش ہونے والی ہے اور حکومت کے اعصاب کا بھی مزید امتحان ہونے والا ہے۔قدرت نے ہمیں محشر کی گھڑی میں کھڑا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اگر ہمارے شاملِ حال نہ ہُوئی تو ہمارے عذاب کئی گنا مزید بڑھ جائیں گے۔ اس لیے یہ گھڑیاں، انکسار کے ساتھ، اللہ کی نصرت مانگنے کی بھی ہیں ۔
سیلابوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر کونے میں شکایتوں، ایذاؤں اور دکھوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ کوئی دُکھ بھرے اور دُکھے لہجے میں اپنے وڈیرے کا نام لے کر شکایت کررہا ہے کہ اُس نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے سرکش سیلابی پانیوں کا رُخ ہماری طرف موڑ دیاہے اور ہمیں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ کوئی شکایت کررہا ہے کہ اگر اپنے اعلانات کے مطابق خیبرپختونخوا میں اربوں کی تعداد میں درخت لگائے گئے ہوتے تو سیلابی پانیوں کی تباہی اسقدر نہ ہوتی ۔ سوشل میڈیا ایسی شکایات سے بھرا پڑا ہے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر آج کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو شاید سندھ میں سیلاب اتنی بربادی نہ مچا سکتے۔
حیرانی کی بات ہے کہ اب جب کہ سارا پاکستان ہلاکت خیز عذابوں سے گزر رہا ہے، مبینہ طور پر ہمارے صدرِ مملکت صاحب ایوانِ صدر میں، سرکاری اخراجات پر، اپنی شادی کی 50ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ بلند بانگ دعوے کرنے والے سرکاری اداروں نے سیلاب کے متاثرین کی مدد کرنے میں ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں ۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قطر کے دَورے کے بعد لندن جانا تھا لیکن سیلابوں کی شدت اور کرلاتے سیلاب زدگان نے اُن کے پاؤں میں زنجیر ڈال دی ہیں ۔قطرسے وہ سیدھے اسلام آباد اُترے ہیں اور غیر ملکی سفیروں اور عالمی مالیاتی اداروں کے نمایندگان سے ملاقاتیں کررہے ہیں کہ کسی طرح امیر ممالک سے اپنے سیلاب کے ماروں کی امداد کے لیے کچھ حاصل کیا جا سکے ۔ ایسے میں ورلڈ بینک نے فوری طور پر سیلاب زدگان کی امداد کے لیے50کروڑ ڈالرز حکومتِ پاکستان کو عطیہ کیے ہیں۔یہ امداد فی الحقیقت اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے لیکن ضرورت کی ان پُر آزما گھڑیوں میں یہ پچاس کروڑ ڈالر بھی غنیمت محسوس ہو رہے ہیں ۔
افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے اہلِ زر اور دولتمند سیاستدانوں و حکمرانوں نے اخلاص اور محبت سے سیلاب زدگان کی مدد امداد کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ نہیں کھولے ہیں ۔ جس پاکستان سے ان مقتدرین نے اربوں روپیہ’’ کما‘‘ کر اپنی تجوریاں بھری ہیں، اُسی پاکستان اور اس کے مصیبت زدہ عوام کی دستگیری اور اعانت کرتے ہُوئے ان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ اپنے فرائض سے دانستہ پہلو تہی کرنے والے ان سیاستدانوں سے سیلاب زدہ عوام انتخابات میں نمٹ لیں گے، جب انھیں آئینہ دکھایا گیا۔انشاء اللہ۔ اِن امیر و سرمایہ دار مقتدرین کو ہماری بعض این جی اوز شرم دلا رہی ہیں۔
اِن این جی اوز نے اپنے محدود مالی وسائل کے باوصف سیلاب زدگان کی ہر طرح مدد کرنے کے لیے اپنے فنڈز کے منہ بھی کھول دیے ہیں اور اپنے کارکنان کو بھی سیلاب زدگان کی دستگیری کے لیے گہرے پانیوں میں بھجوا رکھا ہے ۔ انسانیت کا درد رکھنے والے یہ کارکنان رات کے اندھیرے دیکھ رہے ہیں نہ گلے گلے تک پھیلے کیچڑ و سیلابی سمندر کی پروا کررہے ہیں ۔
مثال کے طور پر ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے کارکنان نے ایثار و خدمت کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ، محمد عبدالشکور، اخوت فاؤنڈیشن کے سربراہ، ڈاکٹر امجد ثاقب، کے ساتھ مل کر سیلاب کے متاثرین کی مدد کرنے میں شب وروز ایک کررہے ہیں۔ دونوں معزز حضرات لوگوں سے بھی اپیل کررہے ہیں کہ وہ بھی اِس میدان میں فوری طور پر آگے بڑھیں اور دُکھوں کے ماروں کا ہاتھ تھام لیں۔ مجھے ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے ترجمان ، شاہدشمسی، نے بتایا ہے کہ اُن کی این جی او پچھلے ایک ماہ کے دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ متاثرینِ سیلاب کو امداد فراہم کر چکی ہے ۔
اِس امداد کی کُل مالیت 9کروڑ روپے سے متجاوز ہے۔ بنی نوعِ انسان اور دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے کی بنیاد پر لاتعداد لوگ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ پر بے حد اعتبار بھی کرتے ہیں ۔ ابھی چند دن پہلے ہی مجھے ایک معتبر شخص نے بتایا کہ گوجرانوالہ کے ایک مخیر شخص (جو سابق جسٹس بھی رہے ہیں اور دو تین بار ایم این بھی منتخب ہُوئے ہیں) نے چپکے سے ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کو ایک کروڑ روپے کا چندہ عنایت فرما دیا ۔ ’’پاکستان ہلالِ احمر‘‘(PRCS) کے سربراہ، ابرارالحق، بھی اپنے دفتر کی آسائشوں سے نکل کر سیلاب زدگان کی مدد کو پہنچے ہیں ۔ جزاک اللہ۔
اپنی تشہیر کیے بغیر خاموشی کے ساتھ انسانیت کی خدمت کرنے والے یہی لوگ زمین کا نمک کہلاتے ہیں ۔لندن میں اپنا ہیڈ آفس رکھنے والی دو این جی اوز ( مسلم ہینڈز اور المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل)کا شمار بھی ایسی ہی انسانیت نواز این جی اوز میں ہوتا ہے ۔ ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے سربراہ سید لختِ حسنین ہیں اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل‘‘ کے سربراہ کا نام عبدالرزاق ساجد ہے۔ دونوں ، الحمد للہ، پاکستانی ہیں۔ دونوں کی شہرت عالمی سطح پر پہچان حاصل کر چکی ہے۔ سید لختِ حسنین نے مجھے بتایا ہے کہ سیلاب زدگان کی ہر نوع کی امداد کے لیے وہ خصوصی طور پر پاکستان آ چکے ہیں اور اپنے کارکنان کے ساتھ متاثرین کی مدد کرنے میں جُٹے ہُوئے ہیں۔ وہ سیلاب زدگان تک بنی بنائی خوراک، ادویات اور صاف پانی پہنچا کر ثوابِ دارین حاصل کر رہے ہیں ۔
اِسی طرح عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی ممکنہ دستگیری کے لیے لندن سے پاکستان تو نہیں آ سکے ہیں لیکن وہ اپنے ادارے کے جملہ وابستگان کے توسط سے سیلاب کے متاثرین کی ہر ممکن اعانت کے لیے پاکستان کے ہر کونے میں موجود ہیں ۔ عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا کہ وہ اب تک سیلاب زدگان کی امداد کے لیے نصف ملین پونڈز کی رقم خرچ کر چکے ہیں ۔ آیندہ ایام میں سید لختِ حسنین اور عبدالرزاق ساجداُن لوگوں کے مکانات از سرِ نَو تعمیر کرنے کی نیت رکھتے ہیں جن کے مکانات سیلابوں نے نگل لیے ہیں ۔