قوم اِن دنوں اپنی تاریخ کے دو تین بڑے بحرانوں سے گذر رہی ہے۔ معاشی بحران جو 2017 سے اس ملک و قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور جو کسی طور تھمنے اور ٹلنے کا نام بھی نہیں لے رہا تھا کہ اپریل 2022 سے وارد ہونے والے اک نئے سیاسی بحران نے ان مسائل میں اضافہ کر دیا۔
سابق وزیراعظم جب سے اقتدار سے معزول ہوئے ہیں ایک دن کے لیے بھی خاموش نہیں بیٹھے ہیں، وہ اپنی اس سیاسی تحریک کو پہلے دن سے سونامی کا نام دیتے آئے ہیں اور اپنی سیاست سے یہ ثابت بھی کر دکھایا ہے کہ واقعی اُن کی سیاست اس قوم کے لیے ایک بہت بڑی سونامی سے کم نہیں ہے۔ اپنی سیاست کو یہ نام دیتے ہوئے اُن کے ذہن میں پتا نہیں کیا خدوخال ہونگے لیکن جس طرح وہ اس سیاست کو لے کر آگے بڑھتے جا رہے ہیں اس نے اس ملک و قوم کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سونامی کا لفظ چنتے ہوئے شاید اُن کا بھی یہی خیال ہوگا کہ یہ سب کچھ بہا کے لے جائے گی اور حقیقتاً ہوا بھی ایسا ہی ہے۔
2014 کے دھرنے سے لے کر آج تک یہ قوم ایک لمحہ کے لیے بھی سکھ کا سانس نہیں لے پائی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جو اس قوم اور ملک کے لیے اچھی خبر بن کر اُسے کچھ اچھائی یا بہتری کی اُمید دلاتا۔ ہر دن پہلے سے بھی زیادہ خراب اور بدتر بن کر ہمارے لوگوں کو مایوسیوں کے اندھیرے میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ معاشی طور پر یہ ملک کمزور ہوچکا ہے ۔ IMF سے اگر ایک ارب ڈالر کی قسط مزید تاخیر کا شکار ہوگئی تو پھر ہمیں مزید معاشی مسائل گھیر لیں گے۔
بحیثیت قوم ہم ابھی معاشی بحران سے نکل بھی نہیں پائے تھے کہ آسمانی آفت نہیں ہمیں آدبوچا۔ بارشوں اور سیلابوں نے سب کچھ تباہ کر ڈالا۔ لاکھوں گھر برباد ہوچکے ، کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، ہزاروں اور لاکھوں انسان اور مویشی ہلاک ہوچکے۔ ریل ، سڑکیں ، پل اور سارا انفرا اسٹرکچر ملیا میٹ ہوچکا۔ نقصان کا ابھی صحیح اندازہ بھی لگایا نہیں جاسکتا ہے۔ اصل صورتحال تو بعد میں پتا لگے گی ، مگر یہاں سیاستدانوں کو اپنی صرف سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ وہ ایسے حالات میں بھی اپنے طے شدہ جلسوں میں لگے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں پی ٹی آئی کی قیادت جانتی ہے کہ اگر اس نے کچھ دنوں کے لیے اپنی سیاسی تحریک روک دی تو پھر شاید وہ اِسے متحرک نہ کر پائے۔ جو عوامی مقبولیت اُسے اس وقت حاصل ہے دیر کردینے سے کہیں زائل نہ ہوجائے ۔ اس لیے وہ وہاں وہاں جلسے کرنے جا رہی ہے جہاں پانی ابھی کچھ کم ہے۔
اُسے معلوم ہے کہ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے ، جو اصول اور قوانین میاں صاحب کو نااہل کروانے کے لیے وضع کیے گئے تھے وہی اصول اگر ان کیسوں میں بھی استعمال کیے گئے تو پھر نااہلی کا خدشہ ہے۔ رعایت دینے والوں نے اگر کوئی امتیازی سلوک برتا تو پھر شاید بچت ہو پائے ورنہ مقدمات کے ممکنا نتائج تو واضح اور یقینی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب قوم کو سیلابی پانی میں ڈوبتا دیکھ کر بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں کچھ دنوں کے لیے معطل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
دو ہفتوں میں سترہ جلسوں کا شیڈول ترتیب دیا جاچکا ہے اور ہر جلسے میں صرف ایک ہی بات کہ میں انھیں نہیں چھوڑوں گا۔ امریکی سازش کا بیانیہ اب ماند پڑ چکا تو نیوٹرل کے پیچھے لگ گئے۔ شہباز گل کے اپنے نامناسب بیان کی پاداش میں گرفتار ہوئے تو اس پر جسمانی اور جنسی تشدد کا الزام اس تواتر کے ساتھ لگایا جا رہا ہے کہ قوم مجبوراً یقین اور اعتبار کر لے۔
حالانکہ ان کے اپنے نامزد کردہ پنجاب کے وزیر داخلہ جناب ہاشم ڈوگر یہ واضح طور پر اور اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ شہباز گل خیریت سے ہیں اُن پر کوئی جسمانی تشدد نہیں کیا گیا مگر خان صاحب اُن کی سرزنش کرنے کے بجائے اپنے ہر جلسے میں یہ الزام مسلسل لگاتے جارہے کہ شہباز گل کو برہنہ کر کے مارا گیا ہے۔ پولیس نے شاید انھیں برہنہ بھی نہ کیا ہو لیکن خان نے اس غریب کو ہرجلسے میں برہنہ کر کے اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ رہائی کے بعد عوام کا سامنا کرسکے۔
خان کی ساری سیاست ہی پروپیگنڈہ پر مبنی ہے، وہ اپنے سیاسی مخالفوں کو بھی اسی حربہ کے ذریعہ نیچا دکھاتے رہے ہیں، وہ گزشتہ دس سالوں سے اُن کے خلاف چور اور ڈاکو کی تسبیح اس طرح پڑھتے رہے ہیں کہ قوم بالآخر یقین کرنے پر مجبور ہو جائے اور ہوا بھی یہی۔قوم اس وقت تین بحرانوں سے گذر رہی ہے، ایک معاشی ، ایک سیلابی اور ایک سونامی۔ پہلے دو بحران تو شاید ختم ہوسکتے ہیں لیکن تیسرا بحران ختم ہونے والا نہیں۔ یہ بحران اس وقت تک چلتا رہے گا ، جب تک اُس کی قیادت کو اسلام آباد میں حکمرانی کا تاج پہنا نہیں دیا جاتا ۔