اسلام آباد انتظامیہ کے افسران سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اعلان کررہے تھے کہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144نافذ ہے، اس لیے یہاں کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت ہے نہ جلوس نکالنے کی۔ اِس واضح اعلان کے باوصف عمران خان نے بڑے دھڑلّے سے 20اگست کی شام اسلام آباد میں ریلی بھی نکالی اور ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت کے ایف نائن پار ک میں شاندار جلسہ بھی کیا۔
خان صاحب کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ (اُن کے چیف آف اسٹاف) شہباز گل پر ( مبینہ طور پر) جو ظلم کیا گیا ہے، اِس اقدام کے خلاف وہ اسلام آباد میں ریلی نکالیں گے۔اُن کی طرف سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جوق در جوق شریک ہونے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔
عمران خان دعوت دیں اور کارکنان شریک نہ ہوں، یہ ممکن نہیں ہے۔خان صاحب اور اُن کے پُر جوش کارکن دفعہ 144 کو بھی خاطرمیں نہ لائے۔ کارکنوں کا یہ جوش پی ٹی آئی کے چیئرمین کی کامیابی ہے۔ عمران خان نے تازہ ریلی اور تازہ جلسے میں کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں کی۔بس پرانی باتیں ، دعوے اور دھمکیاں پھر سے دہرا دیں ۔
توقع تھی کہ وہ ریلی میں شہباز گل کی حراست اور تفتیش بارے کوئی ہیجان خیزبات کریں گے لیکن ایسی کسی بات کا ظہور عمل میں نہ آ سکا۔ ہاں، ریلی میں وہ ایک بار پھر ’’ نیوٹرلز‘‘ کو للکارتے، پکارتے سنائی دئیے۔ اُن کی اِس تازہ للکار اور پکار میں مگرکوئی جان نہیں تھی ۔وہ شہباز گل پر مبینہ تشدد کا ذکر کرتے تو پائے گئے لیکن شہباز گل کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ مفقود سی نظر آئی ۔
خیال ہے کہ خان صاحب کی ریلی سے چند گھنٹے قبل وزیراطلاعات، محترمہ مریم اورنگزیب، نے پریس کانفرنس کرتے ہُوئے شہباز گل کی صحت بارے جو ویڈیو چلائی، اس نے خان صاحب کے موقف ( کہ شہباز گل پر تشدد ہُوا ہے) کی ہوا نکال دی تھی ۔ اگر یہ ویڈیو سچی ہے تو اس ویڈیو میں شہباز گل بھلے چنگے اور ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے ۔ لاریب وزیر اطلاعات کی دکھائی گئی اس ویڈیو اور پریس کانفرنس نے خان صاحب کے موقف میں خاصا بڑا ڈنٹ ڈال دیا تھا۔وزیر اطلاعات اور اتحادی حکومت کا موقف ہے کہ شہباز گل پر کوئی تشدد نہیں ہُوا ہے۔
اِس کے باوصف خان صاحب اور پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے موقف پر ڈٹے رہیں تو اُن کی مرضی۔ محترمہ مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس میں ایک بات بہرحال ضرور کھٹکتی رہی کہ وہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے خائف بھی محسوس ہُوئیں اور اس کی طاقت بھی تسلیم کرتی رہیں ۔ ایسا نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ یہ تو حریف کی طاقت اور ہتھکنڈوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے ۔
جناب عمران خان اپنے چند مرکزی مطالبات منوانے کے لیے جس توانائی اورتسلسل کا اظہار کررہے ہیں، ایسا کرکے وہ دراصل اپنی کمزوریوں کو بھی عیاں کرتے جا رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کی تازہ ریلی و جلسے میںاُنہوں نے اسلام آباد پولیس کے دو سینئر افسروں اور ایک خاتون مجسٹریٹ کو جو مبینہ دھمکی دی ہے، اس سے بہت سے حلقے ناراض اور نالاں ہُوئے ہیں ۔
شائد خان صاحب بعض سرکاری حلقوں کو مشتعل کر کے ہی اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں۔تازہ دھمکی کے بعد شنید ہے کہ ’’پیمرا‘‘ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ خان صاحب کی تقاریر ٹی وی پر لائیو نشر نہیں کی جائیں گی۔یہ نوبت آنا ہی تھی۔اگر نواز شریف کے کسی مبینہ بیان یا اقدام کی پاداش پر نواز شریف کی کسی بھی تقریر یا بیان کو ٹی وی پر نشر کرنے پر پابندیاں لگ سکتی ہیں تو عمران خان کو کھلی چھُٹی کیسے دی جا سکتی ہے؟ خان مخالف حلقوں کا بھی یہ مطالبہ رہا ہے ۔ شائد اب اس پر عمل بھی ہو جائے ۔ اس سے خان کا بڑا نقصان ہوگا کیونکہ اُنہیں بولنے کا بے حد شوق ہے اور ٹی پر پبلسٹی کا بھی۔
نیویارک میں گستاخ سلمان رشدی پر ہونے والے تازہ ترین حملے کے حوالے سے خان صاحب کا ایک بیان بھی متنازع بن رہا ہے ۔اس بیان کی وجہ سے مخالفین اور حریفوں نے خان صاحب کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی ہے۔نون لیگ کے ٹرولرز نے اُن پر تنقید کے تیر بھی برسائے ہیں۔
حتیٰ کہ عمران خان کو وضاحت کے لیے بیانات جاری کرنے پڑے ہیں اور اپنے مبینہ بیان سے یہ کہہ کر لاتعلقی کا اظہار کیا ہے کہ جس برطانوی اخبار (گارڈین)نے انٹرویو کے نام سے گستاخ سلمان رشدی کے حوالے سے ایک بیان اُن سے منسوب کیا ہے، ایسا بیان اُنہوں نے سرے سے دیا ہی نہیں ۔ اچھا کیا کہ خان صاحب نے یہ تردیدی بیان فوری جاری کر دیا ۔ مناسب مگر یہ تھا کہ وہ اُن سے مبینہ غلط اور بے بنیاد بیان منسوب کرنے والے برطانوی اخبار، گارڈین، کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرتے۔ خان صاحب مگر ایسا نہ کر سکے ۔
نجانے کیوں؟چندہفتے قبل(28جولائی2022ء) ایک اور برطانوی اخبار (فنانشل ٹائمز) کے رپورٹر ، سائمن کلارک ، نے عمران خان کی مبینہ فارن فنڈنگ بارے تحقیقی اسٹوری شائع کی ( جو خان صاحب کے لیے خاصی ضرررساں تھی)تو بھی خان صاحب مذکورہ برطانوی جریدے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں ناکام رہے تھے ۔ خان صاحب ایسے بہادر اور جرأتمند شخص، جو برطانیہ کو برطانوی شہریوں سے بہتر جاننے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، کی طرف سے یہ رویہ خان صاحب کے عشاق کے لیے ناقابلِ فہم، مبہم اور معمہ ہے ۔
پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین نے سرکاری پابندیوں کے باوجود اسلام آباد میں ریلی بھی نکال لی۔ جلسہ بھی کر لیا ۔ خان صاحب کے ایک مبینہ معتبر ساتھی اور سابق وزیر داخلہ، شیخ رشید احمد، کی ہم نے اِس ضمن میں یہ دھمکی اور بھبھکی بھی سُن لی کہ ’’ اگر حکومت پی ٹی آئی کی ریلی اور جلسے کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرتی تو پی ٹی آئی کے کارکنان حکومت کی دفعہ144کے 144 ٹکڑے کر دیتے‘‘ ۔ شیخ صاحب جوشِ محبت میں کچھ زیادہ ہی کہہ گئے ہیں۔
اُنہیں جب ایسے غیر متوازن اور جذباتی نعروں کا احساس ستاتا ہے تو وہ معافی مانگنے میں بھی دیر نہیں کرتے ۔ ایسے گُنوں ہی نے شیخ صاحب کو مشہور سیاستدان بنا رکھا ہے ۔ حیرانی ہمیں مگر اِس بات کی ہے کہ اسلام آبادی ریلی اور راولپنڈی کے تازہ جلسے میں جہاں عمران خان نے دُنیا جہان کی باتیں کہی ہیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے بلند بانگ دعوے کیے ہیں ، وہاں اُن کے منہ سے پاکستان کے کروڑوں سیلاب زدگان کی محبت اور ہمدردی میں ایک لفظ ادا نہیں ہو سکا ہے۔خان صاحب کی اِس سنگین غفلت نے اُن کے چاہنے والوں کو بھی پریشان اور مایوس کیا ہے ۔ پاکستان کا رواں لمحوں میں سب سے بڑا مسئلہ ہی سیلاب زدگان کا ہے ۔ اُن کی بحالی اور اعانت ہی ہمارے سبھی سیاستدانوں اور مقتدر قوتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
خان صاحب نے مگر سیلاب زدگان کا سرے ہی سے ذکر نہ کرکے دراصل اپنے لاکھوں ووٹروں کو خود سے دُور کر لیا ہے ۔ اس غفلت اور نظر اندازی کا آیا یہ مطلب لیا جائے کہ جن علاقوں کو مہلک سیلابوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے ، وہاں سے خان صاحب کو ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے؟ عمران خان کا سرکار اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غصہ کم ہو تو شائد وہ سیلاب زدگان کے مصیبت زدگان کے دکھوں اور نقصان پر بھی بات کر سکیں ۔