90

ریاستی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ رکا نہیں

سیاسی استحکام اور معاشی استحکام میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب تک سیاسی استحکام نہ ہو معاشی استحکام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سیاسی عدم استحکام ہی تھا کہ ڈالر 250 کو چھو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ایسی ہی صورتحال رہی کہ سیاسی عدم استحکام سے ملک کی معیشت پر ایسے منفی اثرات مرتب ہوئے کہ ایک ڈالر جو صرف 3 روپے کچھ پیسے کا تھا بڑھ کر 4 روپے سے زائد ہو گیا۔

یہ وہی وقت تھا جب پاکستان میں حکومتیں اتنی تیزی سے بدل رہی تھیں کہ وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو کو کہنا پڑا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی تیزی سے پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں کہ جب 1971؁ء میں پاکستان ٹوٹا تو ایک ڈالر کی قیمت دوگنے سے بھی زیادہ ہو گئی یعنی 10روپے کے قریب۔

 

آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن معاشی حجم کے لحاظ سے دنیا میں 47 ویں نمبر پر آتا ہے۔ نائن الیون کے وقت پاکستان کی فی کس آمدنی بھارت سے زیادہ تھی مگر اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت اس معاملے میں پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ 1980؁ء سے یعنی پچھلے 42 سالوں سے پاکستانی معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو صرف 4.7 فیصد رہی۔ جو بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ ہے۔ یہ نظام طاقتور اور مالدار طبقوں کو چھوٹ اور مراعات دیتا ہے اور ٹیکس چوری کے راستے کھلے رکھتا ہے۔

پچھلے 20 سے 30 سال کے عرصے میں مختلف حکومتوں نے ایک درجن کے قریب ٹیکس ایمنسٹی کا اجراء کیا۔ لیکن ان سے ملکی معیشت اور عام آدمی کو کیا فائدہ ہونا تھا بلکہ الٹا شدید نقصان پہنچا۔ مگر اشرافیہ کی دولت میں زبردست اضافہ ہوا۔ کیونکہ پاکستان میں ٹیکسوں کی پالیسی طاقتور اشرافیہ کے مفاد میں بنائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے اور اس سے ذرا اوپر افراد کی تعداد 8 سے 10 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب معیشت زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست بھی کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اگر ٹیکسوں کا نظام درست کر لیا جائے اور ٹیکس چوری روک لی جائے تو ماہرین معیشت کے مطابق غریب عوام پر نئے ٹیکس لگائے بغیر پرانے ٹیکس ہمیں دوگنا آمدنی دے سکتے ہیں لیکن یہ کرے گا کون۔ وہ ایلیٹ کلاس جو امریکہ کی پروردہ اور پاکستان میں امریکی مفادات کی محافظ ہے۔ پاکستان سے زیادہ امریکہ کی وفادار ہے کہ اس کی بقا اور مفادات امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان سمیت تیسری دنیا میں عوام کو غریب رکھنا سب کے مفادات میں ہے چاہے وہ امریکہ ہو یا پاکستان کا جاگیردار سردار وڈیرہ۔ کیونکہ غربت کا خاتمہ وہ شعور دیتا ہے جو سینکڑوں ہزاروں سال سے مظلوم انسانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرا سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اپنی خارجہ معاشی پالیسیوں کو امریکی چنگل سے آزاد کرائیں۔

سمجھنے کی باریک بات یہ ہے کہ پاکستان بڑی معاشی قوت بن سکتا تھا لیکن اسے اس لیے نہیں بننے دیا گیا کہ وہ جوہری طاقت بن چکا تھا۔ مسلم دنیا میں واحد جوہری طاقت ایک مسلمان ملک اگر بڑی معاشی قوت بن جاتا تو پاکستان اپنی حقیقی خود مختاری اور آزادی حاصل کر سکتا تھا۔ ایک مسلم ملک اوپر سے جوہری طاقت اور معاشی قوت۔ پاکستان کسی بھی طرح سے سامراجی ایجنڈے میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔

اگر پاکستان کی پوری تاریخ پر نظر دوڑائیں اور گہرائی سے جائزہ لیں تو آپ کو آسانی سے واضح طور پر نظر آ جائے گا کہ نادیدہ عالمی و مقامی قوتیں پاکستان کو بار بار ترقی کے راستے سے روک کر اسے ایسے راستے پر ڈالتی رہیں جو تباہی و بربادی کا راستہ تھا۔ ایسا اتفاقی ہرگز نہیں تھا۔ اگر پاکستان سیکولر ملک ہوتا تو پھر بھی اسے برداشت کر لیا جاتا لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا۔ یہاں تک کہ امریکی سامراجی مفادات کے لیے مذہبی ریاست بن کر رہ گیا کیونکہ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف استعمال ہونا تھا۔

امریکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو بنیاد پرست ریاست بنایا گیا کہ لاکھوں جنگجوؤں کو مذہب کے نام پر استعمال کر کے بلاشرکت غیرے دنیا پر قبضہ کیا جا سکے۔ سوویت یونین ٹارگٹ تھا اسی لیے برصغیر کو تقسیم کیا گیا۔ ایران افغانستان سمیت مشرق وسطی کے قدرتی وسائل تیل ، گیس قیمتی معدنیات کا سستے داموں حصول،۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو بڑی بے رحمی سے استعمال کیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے سمیت ہر طرح کی تباہی و بربادی پاکستان کا مقدر بنی۔

پاکستان پر بڑا ہی ظلم ہوا۔ اس ظلم میں اپنے اور پرائے سب شامل تھے۔ جو اس کار خیر میں شامل نہیں ہوئے ان کا مقدر قتل ، پھانسی، گولی اور عقوبت خانے ٹھہرے۔ ظلم کی انتہاء دیکھیں کہ سامراجی مفادات کے لیے پاکستان کو توڑ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اسے جی بھر کر لوٹا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔