61

ٹک ٹاک لائیکی اور سنیک

موبائل پر جس طرح ایپس اس وقت دستیاب ہیں ویسے جس کے ہاتھ میں ایک بار ٹچ موبائل آ گیاتو وہ گیا۔ خواہ وہ فرد زندگی کے کسی شعبہ سے تعلق رکھتا ہواس نادر و نایاب شئے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔۔ سو موبائل کو بھی ایک نشہ جانیں۔ وہ منہ سے لگتا ہے اور جا نہیں پاتا۔ اسی طرح موبائل ایپس کی دنیابھی نشہ ہے کہ آنکھوں کی مقناطیس کے ساتھ جوں میخیں کیلیں ہوں چمٹ جائیں تو زخمی کرتی ہیں اورچھوٹتی نہیں۔اب موبائل اچھی چیز بھی ہے تاہم زیادہ تر اس کا استعمال منفی انداز میں ہوتا ہے۔بڑے بوڑھے بچے نوجوان نسل سب اس کے رنگ کو دیکھ کر خربوزے کی طرح رنگ پکڑ لیتے ہیں۔چلو بعض بڑے تو بڑے ہیں وہ اپنے اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں مگر ہمارے بعض نوجوان بچے اس ٹک ٹاک اور سنیک کے ہاتھوں کہیں کے نہیں رہے۔

رانا فقیر دوست ہیں جن سے ہماری ملاقات فیس بک پر رہتی ہے۔انھوں نے ایک پوسٹ لگائی ”اگر اپنے بچوں کے ہاتھ میں موبائل دیا ہے اور ان پر چیک نہیں رکھا تو کل کو ان سے یہ توقع نہ کریں کہ وہ آپ کے ساتھ تمیز سے پیش آئیں گے“۔پہلے ٹک ٹاک کا زلزلہ آیاپھر اس کے بعد لائیکی کی بجلی کڑکی او رکھیت جلا گئی پھر اس کے بعد سنیک جیسی ایپ نے تو رہ سہی کسر پوری کردی۔سوشل میڈیا پر بہت اچھے کام بھی ہورہے ہیں اور ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ بھی اسی کے ذریعے ہوتا ہے۔تاہم اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے۔ تاکہ نوجوانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی ہو۔کیا ہم اپنے معاشرے کوسائنسی ایجادات نہیں دے سکتے۔

 سیلفی آئی اور اس نے کئی جانیں نگل لیں کوئی سیلفی بنانے دریا کنارے پرپھسلا اور پانی کی لہروں کی نذر ہوگیا اور کوئی آئی ہوئی ٹرین کے آگے سیلفی بنانے کو بیٹھا تو بیٹھا ہی رہ گیااور ٹرین اس کے اوپر سے ہو کرگزر گئی۔کسی نے مووی بنانے کو دریا میں چھلانگ لگائی تو پھرانھیں لہروں کے سنگ واپس نہ آیا۔ہم تباہی کے دہانے پر تو پہنچ چکے ہیں جہاں ہوا کا ایک ذراسا جھونکا ہمیں پہاڑ کے اوپرسے اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا سکتا ہے۔یہ ہم کون سا کلچر پروموٹ کر رہے ہیں۔ جب بچوں کے ہاتھ میں موبائل دیا ہے تو ا س پر چیک رکھنا ہوگا۔