پاکستان میں مون سون کی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس سال سے پہلے یہاں مون سون کی بارشیں ہوتی ہی نہ تھیں۔ چند برسوں پہلے ہی کی بات ہے جب پورا ملک جل تھل ہو گیا تھا اس وقت سنا گیا ہے کہ دینے والوں نے کھل کر پیسے دیے تھے کہ جناب اپنے ملک میں ندی نالے درست کرلیں اور آج تک بات ’’کر لیں‘‘ پر اٹکی ہوئی ہے۔ شہر کراچی تو خیر آگے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب سفر کر رہا ہے جب کہ ملک کے دوسرے حصوں کا حال بھی سخت تکلیف دہ ہے۔
بلوچستان خاص کر اس کی لپیٹ میں ہے جہاں ساڑھے تیرہ ہزار گھر متاثر اور ڈیڑھ ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں جب کہ کوئٹہ میں انگوروں کے باغات سخت متاثر ہوئے ہیں اور ضلع وارشک میں پیاز سے بھری بوریاں تک بہہ گئیں، جانوروں کی اموات ایک الگ دکھ کی بات ہے۔ آفات قدرتی تھیں لیکن اذیت و تکالیف میں پوری قوم مبتلا ہے کہ ہم نے کم کرنے کے بجائے زیادہ ہوتے ہی دیکھیں۔ وجہ کیا ہے؟
پانی سے ڈیم بھرے ہیں، براہ کرم اب تو پانی کھول دیں۔ یہ انھی شدید بارشوں کے درمیان ایک درخواست کی محض ایک سطر ہے جو واٹر بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر کو لکھی گئی تھی، ذرا سوچیے سیلاب کی تباہ کاریاں تھمی نہیں اور شہر میں واٹر ٹینکرز اب بھی گھوم رہے ہیں یہ کس قدر عجیب سی بات ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی دستیاب مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹرز ہے جس میں صرف چھ فیصد گھریلو استعمال کے لیے دستیاب ہے 90 فیصد زراعت کے لیے اور چار فیصد صنعتوں کے لیے گویا بائیس کروڑ عوام میں سے ابھی 70 فیصد کو صاف پانی (پینے کے لیے) دستیاب نہیں ہے اور صرف پندرہ ارب کیوبک میٹر گھریلو استعمال کے لیے پانی دستیاب ہے یعنی یہ پندرہ کیوبک میٹر صرف 30 فیصد لوگوں کے لیے ہے۔
یہ رپورٹ ابھی مون سون کے موسم سے ذرا پہلے کی ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ صرف بلوچستان میں ہی بلند ترین مقام کان مہترزئی میں اس شدت سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوا کہ مجبوراً لوگ شہر کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یہ سیلابی ریلے، عمرزئی، زعلونہ، یعقوب کاریز، شنہ دیالہ، سرانہ سمیت کئی دیہاتوں پر بپھرے ہوئے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنے مہنگے اور قیمتی پھل، مویشی، فصلیں اور اپنے مکانات پانی میں غرق ہوتا دیکھ کر کیا کچھ سوچ رہے ہوں گے، بے سروسامانی اور نقل مکانی کی تکالیف ان پر کیا عذاب ڈھا رہی ہوں گی۔
دنیا بھر میں جن ممالک میں پانی کی قلت شدید ہے پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز اور یو این ڈی پی کے مطابق 2025 تک پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا اور فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہی ہوگا۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی بڑی مقدار پاکستان میں موجود ہے اور دنیا کے صرف پینتیس ممالک ایسے ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں، یہ درست ہے کہ ہمارے ملک میں پانی کے وسائل ہیں لیکن انھیں محفوظ نہ کرنے کی وجہ سے ہر سال مون سون کی بارشوں اور سردیوں میں ہونے والی بارشوں کا پانی سمندروں میں بہہ کر ضایع ہو جاتا ہے۔ ہم ابھی تک ان ذرایع کو ایک توازن میں لانے میں ناکام رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے سالانہ لاکھوں کیوبک پانی ضایع ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنی سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں بہنے والے پانی کو اپنے عام استعمال میں لا سکتے ہیں؟ تو جواب ملے گا نہیں۔ دراصل یہ گلیوں، محلوں اور گٹروں سے ابلتا بارش کا پانی آلودگی سے پُر ہوتا ہے لیکن یہ ان قدرتی کنوؤں کو ضرور سیراب کرتا ہے جو خشک ہو جاتے ہیں۔
لاکھوں گیلن پانی کے سمندر برد ہونے کے بجائے محفوظ کرنے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟ کیا ہم اس کو ان خشک کنوؤں میں منتقل کرنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھا سکتے ہیں؟ ایسا کراچی میں ایک صاحب انجام دے رہے ہیں۔ جنھوں نے علاقے کے ویران پارک کے سوکھے کنوؤں میں پائپ کی لائن ان سے منسلک کردی جس سے 80 سے 85 فٹ تک پانی جمع ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہوا اور بیشتر بور ریچارج ہوگئے۔ اس کامیاب تجربے نے انھیں مزید حوصلہ دیا اور یوں ایک بڑا کنواں تیار کیا گیا جس میں تیس لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
یوں پانچ سے سات ہزار بور چھ سے آٹھ ماہ تک کے لیے بھر جاتے ہیں۔ ابھی چند مہینوں پہلے ہی کی بات ہے جب ہم نے بلوچستان کے چٹیل میدانوں کی تصویر دیکھی تھی، جو پانی کی شدید کمی سے اپنی زبوں حالی کی کہانی سنا رہے تھے، کوئٹہ کی سڑکیں واٹر ٹینکرز سے بھری رہتی ہیں، آج ہم بلوچستان میں سیلاب کی تباہی پر آنسو بہا رہے ہیں تو کل پانی کی کمی پر شکوے ہو رہے تھے، ہم کیسے ناشکرے ہیں، اوپر والا دیتا ہے تو بھری جھولی جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، سوالی بن کر۔
آخر کب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟ ہم پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے دل بھی پتھر ہوگئے ہیں، ہمارے احساسات کہیں کھو گئے ہیں، کاغذ کے نوٹ چاہے وہ ڈالرز ہوں یا یورو، درہم ہوں یا ریال ہمیں بہت بھلے لگتے ہیں، ہمارے اپنے لوگ ہمیں غریب، بے چارے اور کمزور سے لگتے ہیں، شاید اسی لیے قدرتی آفات ہمارے اوپر نازل ہو رہی ہیں، قیامت قریب ہے اور ہمارے ’’سردردیے‘‘ اسے وقت سے پہلے ہی ہم پر لاد رہے ہیں۔