بیان کرنے والے بزرگ نے اس کہاوت کو کچھ اس طرح ہی بیان کیا تھا کہ ایک گاؤں میں پانچ بھائی رہائش پذیر تھے۔ اس خاندان کے پاس گزر بسر کے لیے معقول حد تک زرعی اراضی بھی تھی، بات فقط اتنی سی تھی کہ ان پانچ بھائیوں میں سے چار بھائی اپنے کھیتوں میں خوب محنت کرتے، اپنے پالتو جانوروں کو بروقت چارہ ڈالتے اور وقت پر پانی پلاتے۔ ان کی محنت کا صلہ یہ ملتا کہ پورے گاؤں میں ان کی فصلیں سب زمینداروں کے کھیتوں میں پیدا ہونے والی فصلوں سے اچھی ہوتیں اور ان کے پالتو جانور بھی سب سے زیادہ صحت مند و توانا ہوتے۔
ان تمام حالات میں گاؤں کے دیگر زمیندار اس خاندان سے حسد کرنے لگے، وہ زمیندار ہمہ وقت اس خاندان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہوگئے مگر ہر بار ان حاسدوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ چنانچہ ایک روز ان حاسد زمینداروں نے ایک منصوبہ تیار کیا۔
وہ منصوبہ یہ تھا کہ جس روز ان چاروں بھائیوں کا سب سے بڑا بھائی گاؤں سے باہر جائے تو ان چاروں بھائیوں کی کھانے کی دعوت کی جائے اور ان چاروں کو ان کے بڑے بھائی کے خلاف بھڑکایا جائے تاکہ ان پانچوں بھائیوں کی یکجہتی کو ختم کیا جاسکے۔ چنانچہ ایک روز جب بڑا بھائی کسی ضروری کام سے کسی دوسرے گاؤں گیا تو گاؤں کے زمینداروں نے ان چاروں بھائیوں کی کھانے کی دعوت کردی۔ چنانچہ شام کو یہ چاروں بھائی خوب تیاری کرکے صاف ستھرے لباس زیب تن کرکے سروں پر پگڑیاں باندھ کر مقررہ وقت پر پہنچ گئے۔
Advertisement
دعوت کرنے والوں نے ان کی خوب آؤ بھگت کی، اچھے اچھے کھانے ان کو کھلائے، کھانے وغیرہ سے فراغت پانے کے بعد گپ شپ کا دور شروع ہوا، تو ان زمینداروں نے باتوں ہی باتوں میں ان کے بڑے بھائی کے خلاف باتیں شروع کردیں کہ دیکھو، ’’ دوستو! پورا دن تم چاروں بھائی خوب سخت محنت کرتے ہو، مگر افسوس یہ کہ تم لوگوں کا بڑا بھائی پورا دن اچھے اچھے کپڑے پہن کر سر پر بڑی سی پگڑی باندھ کر گاؤں بھر میں گھومتا پھرتا ہے اور لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف رہتا ہے، بھلا یہ تو انصاف نہ ہوا کہ تم چاروں بھائی سخت محنت کرو اور تمہارا بھائی تمہاری محنت کے بل بوتے پر گاؤں میں چوہدری بنا پھرتا رہے۔‘‘ اسی قسم کی دیگر باتیں بھی گفتگو میں شامل تھیں۔ ان چاروں نے جب زمینداروں کی یہ باتیں سنیں تو وہ چاروں اپنے بڑے بھائی کے خلاف ہوگئے۔
گزشتہ روز صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد ناشتے سے فارغ ہوکر سب نے یک زبان اپنی ماں سے کہا کہ’’ ماں! تمہارے سامنے ہم چاروں بھائی خوب کھیتوں میں محنت کرتے ہیں اور بڑا بھائی کوئی کام نہیں کرتا بلکہ گاؤں میں چوہدری بن کر گھومتا رہتا ہے اور لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل کے فیصلے کرکے اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔
بہتر ہے یہ بھی ہمارے ساتھ کھیتوں میں کام کرے۔ چنانچہ آج جب بھائی مہمان داری سے واپس آئے تو اسے کل ہمارے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے کے لیے لازمی بھیجنا۔‘‘ دور اندیش ماں نے جب اس کا بڑا بیٹا واپس گھر آیا تو اسے تمام حالات سے آگاہ کیا، اور ساتھ حکم دیا کہ ’’ بیٹا ! کل سے تم بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کی غرض سے چلے جانا۔‘‘ سعادت مند بیٹے نے ماں کے فیصلے کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیا اور گزشتہ روز سے اپنے بھائیوں کے ساتھ برابر سے کام کرنے میں لگ گیا۔
چنانچہ جہاں دیدہ ماں نے ایک روز اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ ’’ بیٹا ، رات کو جب تم سو رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک سانپ کا بچہ آیا اور منہ کے راستے تمہارے پیٹے میں داخل ہو گیا۔‘‘ ماں کی بات سن کر بیٹا پریشان ہو گیا کہ میرے پیٹ میں سانپ چلا گیا۔ اب میں زندہ کیسے رہوں گا؟‘‘ چنانچہ وہ ہمہ وقت اسی پریشانی میں مبتلا رہنے لگا، اگرچہ یہ اس کا وہم تھا۔ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ مگر کہتے ہیں نا وہم سے بڑا کوئی مرض نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ دن بہ دن کمزور ہوتا چلا گیا، کھانے پینے سے بیگانہ ہو چکا۔ گویا وہ بستر مرگ پر پڑ گیا۔
اس کیفیت میں وہ چاروں بھائی اپنی ماں سے آ کر اپنی دن بھر کی رام کہانی سناتے کہ ’’ کس طرح ہم سخت محنت کرکے فصلیں تیار کرتے ہیں مگر گاؤں والوں کو دیکھو جس کے جی میں آتا ہے اپنے پالتو جانور ہمارے کھیتوں میں چھوڑ دیتے ہیں، یوں ہماری پوری کی پوری محنت سے تیار فصلیں ان گاؤں والوں کے پالتو جانور اجاڑ دیتے ہیں، اگرکسی سے شکوہ و شکایت کرو تو وہ جیسے پہلے ہی سے لڑنے مرنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے، کیا کریں ماں! ہم تو سخت پریشان ہیں۔
جب ہمارا بڑا بھائی بیمار نہ تھا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی کی گائے بھینس تو کیا کسی کی بھیڑ بکری بھی ہمارے کھیتوں میں گھس سکے۔‘‘ روز روز کی اپنے بیٹوں کی یہ باتیں سن کر وہ ماں کھیتوں میں گئی اور سخت تلاش و جدوجہد کے بعد ایک سانپ کا بچہ پکڑنے میں کامیاب ہوگئی اور اس سانپ کے بچے کو ایک بوتل میں بند کرکے گھر کے ایک کونے میں اس بوتل کو رکھ دیا۔ گزشتہ روز صبح بڑے بیٹے کے بیدار ہونے سے تھوڑا پہلے اس ماں نے اس سانپ کے بچے کو مارا اور اپنے بیٹے کی چار پائی کے پاس زمین پر ڈال دیا اور اس سانپ کے بچے کے اوپر روٹی کے ٹکڑے ملے ہوئے دال ڈال دی، چنانچہ جب اس کا بیٹا بیدار ہوا تو اس کی ماں نے جھٹ سے اس کو بتایا کہ ’’بیٹا ، خدا نے کرم کردیا ہے۔
اب تم بالکل تندرست ہو جاؤ گے، کیونکہ جب تم رات کو بے خبر سو رہے تھے تو اچانک تم نے قے کی اور یہ دیکھو سانپ کا بچہ تمہارے پیٹ سے باہر آگیا، جسے میں نے جلدی سے مار دیا‘‘ ماں کی بات سن کر اس بیٹے کا وہم ختم ہو گیا اور بہت جلد اس کی صحت بہتر ہونے لگی۔ اب وہ دھیرے دھیرے چلنے کے بھی قابل ہو گیا، تو ایک روز اپنی ماں سے کہا کہ ’’ ماں آج میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے کھیت دیکھ کر آؤں‘‘ چنانچہ اس نے سر پر پگڑی باندھی، ہاتھ میں اپنی روایتی لاٹھی تھامی اور اپنے کھیتوں کی جانب روانہ ہو گیا، مگر یہ کیا ! اس کے کھیتوں میں تو گاؤں والوں کے پالتو جانور گھسے ہوئے ہیں اور اس کے کھیتوں کی فصلوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
وہ جلدی سے آگے بڑھا اور لاٹھی سے مار مار کر گاؤں والوں کے پالتو جانوروں کو بھگانے لگا، اس کیفیت میں جو کوئی جانور کا مالک سامنے آتا اس کو بھی لاٹھی سے مارتا کہ ’’تمہارے پالتو جانور ہمارے کھیتوں میں گھسے کیسے؟‘‘ چنانچہ گاؤں والوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے جانور وہاں سے نکال لیے کہ ’’ اب چوہدری آگیا ہے، وہ کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کے بھائیوں کی محنت سے تیار کردہ فصلیں کوئی یوں تباہ و برباد کردے۔‘‘
بہرکیف تمام قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہوتے ہیں، ہر انسان کے دو ہاتھ، دو پاؤں، ایک سر ہوتا ہے۔ البتہ ہر انسان قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں میں برابر نہیں ہوتے۔ چنانچہ ہمارے ملک پر حکومت کرنے والے تو اب بھی ہیں اور خود کو تجربہ کار حکمران بھی کہتے ہیں مگر لمحہ فکریہ ہے کہ اگر اس وقت ہمارے ملک پرکسی قد آور شخصیت کی حکومت ہوتی تو بھارت کی یہ ہمت ہوتی کہ وہ بغیر پیشگی اطلاع کے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں میں یوں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑتا ؟ لازم تھا بھارت کے حکام یہ ضرور غور کرتے کہ پاکستان تو پہلے ہی سیلابی صورت حال سے سخت پریشان ہے چنانچہ ہم یہ آبی حملہ کیوں کریں؟ ایسا نہ ہو کہ ہمیں سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑے، لازمی بھارت کو پاکستانی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا، اگر پاکستان میں کوئی لاٹھی والا چوہدری ہوتا جو فقط چوہدری نہ ہوتا بلکہ اپنے ہاتھ میں لاٹھی لے کر اس لاٹھی کا استعمال بھی کرتا اور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرتا۔