49

بیانیے کی جیت

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے پنجاب میں بزدار حکومت کے دور میں جہاں جہاں ضمنی انتخابات ہوئے مسلم لیگ (ن) فاتح ٹہری۔ پی ٹی آئی حکومت میں ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے میں ناکام رہے، جب اس دور میں (ن) لیگ میاں نواز شریف کے بیانیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو بڑی شد و مد کے ساتھ عوام میں اجاگر کر رہی تھی، پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں (ن) لیگ کی پشت پر تھیں۔

پی ٹی آئی حکومت کے معاشی اقدامات کے باعث عوام کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مہنگائی کے سونامی میں عام آدمی ڈوبتا جا رہا تھا اور لوگوں میں عمران حکومت کے خلاف گرانی کے بڑھتے ہوئے گراف کی وجہ سے بے چینی اور غم و غصہ پروان چڑھ رہا تھا۔ عمران خان اپنی کرشماتی شخصیت کے باوجود عوام میں اپنا اعتماد کھو رہے تھے۔

 

مبصرین و تجزیہ نگار بڑے اعتماد کے ساتھ یہ دعوے کر رہے تھے کہ عمران خان اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اپنی معاشی ٹیم میں بار بار تبدیلی کرنے، تین وزیر خزانہ بدلنے کے باوجود عمران خان معیشت کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے جس کے باعث معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، مہنگائی اور گرانی کا طوفان عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے، عمران خان کا احتساب کا نعرہ بھی نقش بر آب ثابت ہوا، ان کے دور میں آٹا، چینی اور مالم جبہ و بلین ٹری سمیت کئی اسکینڈل منظر عام پر آئے جس سے ان کی ’’گڈ گورننس‘‘ کو بڑا دھچکا لگا۔

پنجاب میں بزدار حکومت کی کارکردگی پر بھی بڑے سوالیہ نشانات لگے۔ ان کی تبدیلی کے لیے عمران خان پر دباؤ بھی آیا لیکن وہ بزدار حکومت کے ساتھ کھڑے رہے اور ان کی کارکردگی کو سراہتے رہے۔ ادھر اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی عمران حکومت کی خراب کارکردگی اور سامنے آنے والے اسکینڈل کی بنیاد پر اس موقف کا اظہار کرتی رہی تھیں کہ ہمیں عمران حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ عمران خان کے معاشی اقدامات، پالیسیاں، فیصلے اور خراب کارکردگی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

 

کیا عمران خان عوام میں مقبولیت کھو رہے ہیں اور کیا اگلے انتخابات میں عوام عمران خان کو مسترد کر دیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ عمران حکومت کی بدانتظامی اور معاشی زبوں حالی اور عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے باعث یہی منظرنامہ بن رہا تھا کہ 2023 کے عام انتخابات میں عمران خان دوبارہ برسر اقتدار نہیں آسکیں گے، انتخابات میں نتائج بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس امر کی ایک اور بڑی حقیقت یہ بھی تھی کہ وہ ’’قوتیں‘‘ جو 2018 سے عمران خان کے ساتھ ’’ایک صفحے‘‘ پر تھیں انھوں نے ’’دوسرے صفحے‘‘ پر جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

 

تحریک انصاف حکومت کی بے ساکھیاں کمزور ہونے لگیں تو پی ڈی ایم نے موقع غنیمت جانا اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈال دیا۔ ’’غیبی اشارے‘‘ کی مدد جب شامل حال ہو جائے تو پھر کیا ڈر۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ پس منظر میں چلا گیا۔ عمران خان نے عوامی جلسے میں ایک خط لہراتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دے دیا۔ اپنی حکومت کے آخری دن آخری گھنٹے تک وہ نہ صرف یہ کہ اپنے ’’سازشی بیانیے‘‘ پر قائم رہے بلکہ ایوان وزیر اعظم سے رخصتی کے بعد سے امریکی سازش کے بیانیے کو عوامی سطح پر اس شد و مد کے ساتھ شہر شہر جلسوں میں اجاگر کرتے اور اپوزیشن رہنماؤں کو میر جعفر و میر صادق قرار دیتے رہے کہ عوامی سطح پر ان کا بیانیہ مقبول ہونے لگا۔ کراچی تا خیبر لوگ ان کے بیانیے کے ساتھ جوق در جوق متحد ہوتے چلے گئے۔

عمران کی اپنی پارٹی کے بعض اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ان سے ناراض ہو کر منحرف ہوئے اور (ن) لیگ کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ نتیجتاً پنجاب کی بزدار حکومت ختم ہوگئی اور الیکشن کمیشن نے 20 منحرف اراکین کی اسمبلی رکنیت ختم کر دی۔ حمزہ شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث سخت مشکل میں آگئی۔ ان کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں یا پھر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر مشکل فیصلے کریں اور 2023 تک اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہیں۔

پی ڈی ایم کے بڑوں نے سر جوڑا اور حکومت میں رہنے اور مشکل فیصلے کرنے کا اعلان کردیا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار بڑے اضافے کیے گئے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی گئیں جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا سیلاب آیا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ شہباز شریف اور ان کے وزرا اپنے سخت فیصلوں کا سارا ملبہ عمران حکومت پر ڈالنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے کہ ہمیں عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی عدم تکمیل کے باعث یہ مشکل فیصلے اور سخت اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔

ادھر الیکشن کمیشن نے 20 منحرفین ارکان کی خالی نشستوں پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے 20 حلقوں میں 17 جولائی کو ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا۔ مریم نواز نے ضمنی الیکشن جیتنے کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور ہر جلسے میں عمران خان کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ ادھر عمران خان بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترے۔ اپنے امریکی سازشی بیانیے کا بھرپور دفاع کیا، عوام سے لوٹوں کو عبرت ناک شکست دینے کی اپیل کی۔

حمزہ شہباز نے پنجاب میں 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو بلوں کی عدم ادائیگی کی نوید سنادی اور شہباز شریف نے 17 جولائی سے دو روز پیشتر پٹرولیم کی قیمتیں کم کردیں۔ ادھر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عمران حکومت کی تبدیلی کو امریکی سازش کا نتیجہ قرار دینے کو بے بنیاد قرار دے دیا۔

بظاہر یہ تینوں چیزیں عمران حکومت کے خلاف اور (ن) لیگ کے حق میں جاتی ہیں، لیکن 17 جولائی کو ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ عوام کی اکثریت نے عمران خان کے امریکی سازشی بیانیے کو سرخرو کردیا اور (ن) لیگ کا بیانیہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی نے (ن) لیگ کے گڑھ لاہور کی چار میں سے تین سیٹیں جیتیں اور عمومی طور پر 20 میں سے 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی۔ (ن) لیگ کو صرف چار سیٹیں ملیں۔ مریم نواز نے عوامی فیصلے کے سامنے سر جھکاتے ہوئے اپنی شکست کھلے دل سے تسلیم کرلی ہے۔

ان کے مثبت انداز سے دیے گئے ردعمل کو سیاسی و صحافتی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے۔مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق (ن) لیگ نے نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو مہمیز کرکے اپوزیشن میں رہتے ہوئے ضمنی انتخابات جیتے تھے اور اب میاں صاحب کے بیانیے کو رد کرکے حکومت میں ہونے کے باوجود ضمنی الیکشن ہار گئے۔

بعینہ عمران خان حکومت میں رہ کر ضمنی الیکشن ہارے تھے اور اب اپوزیشن میں مزاحمت کے سازشی بیانیے کو مہمیز کرکے فاتح بن گئے۔ اب انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ بحران کا واحد حل شفاف انتخابات ہیں تب ہی سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور معیشت بھی سنبھل سکتی ہے۔ انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا جب کہ پی ڈی ایم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں گی، نئے الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے۔

گویا 11 جماعتی حکومتی اتحاد اور واحد اپوزیشن پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی میں نئے الیکشن تک مزید اضافہ ہوگا۔ اس طرح شہباز حکومت عمران خان کے سازشی بیانیے کو مزید پھلنے پھولنے اور جیتنے کے مواقع فراہم کرے گی۔اب سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں حمزہ شہبازشریف کی حکومت ختم کر کے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔