میراایک ہم عمردوست تھا،پیشے سے کسان تھا، اس کاکہناتھا کہ سخت گرمی کے دنوں میں بند کمرے کے اندرگرم گرم اورتیزچائے کاپیالہ ہواورگھونٹ گھونٹ چائے پیوں اورہرگھونٹ کے ساتھ اتناہی پسینہ بہتا رہے ،چائے ختم ہونے کے ساتھ جسم پیسنے میں تربہ تر ہوجائے پھر میں باہرجاکرصحن میں گھنے درخت کے سائے میں جھلنگی چارپائی پر لیٹ جاؤں اور نسوار کی چٹکی منہ میں رکھ کر ہلکی ہلکی پھروائیوں کا مزہ لوں، ایسے میں اگر کوئی آکرکہے کہ کہ اٹھو تم بادشاہ بن گئے ہوتو میں آنکھیں کھولے بغیرکہہ دوں گا بھاڑ میں جاؤتم اورتمہاری بادشاہی دفع ہوجاؤ۔
ایک زمانے میں ہمارامعمول تھا کہ اجمل خٹک، قلندرمومند،ایوب صابراورچنددوسرے شاعروادیب مل کر خیبربازارسے روانہ ہوتے، اس وقت اتنی بھیڑ نہیں ہوتی تھی، قصہ خوانی سے ہوکر بازار بٹیربازاں سے گزرکرچوک یادگارتک کاچکرلگاتے ،بازار بیٹربازاں میں اس وقت پرندوں کی دکانیں ہوتی تھیں لیکن آج کل ان دکانوں میں چائے کی پتی اورمصالحے کی دکانیں۔بازارکے موڑ میں اوپرایک بالکنی تھی۔
اس میں ایک بوڑھاکرسی ڈالے بیٹھاہوتاتھااوراپنے سامنے لٹکے ہوئے گملے میں کشمالو(ریحان)کے ایک پودے کو تکتارہتاتھا،ہم ٹھہرکر اس کاتماشہ کرتے اورتبصرہ کرتے کہ یہ بوڑھااس گملے اورپودے کو باغ یاچمن سمجھ کر لطف اٹھارہاہے یا پریوں کاتصورقائم کیے ہوئے ہے، کیوں کہ گل ریحان کے بارے میں جسے ہندو تلسی کہتے ہیں اوردیوی مانتے ہیں اورہرآنگن میں اور کچھ ہونہ ہوتلسی کاپوداایک خاص اہتمام کے ساتھ لگایا گیاہوتاہے، پشتو میں مشہورہے کہ کشمالویا ریحان کے لیے پریاں آتی ہیں یااس میں رہتی ہیں۔ خوشحال خان بابا کاایک شعرہے۔
پہ ھیچامے پیرزونہ ئے دیارغمہ
تہ زمادزڑہ دمات کودی ریحان ئے
ترجمہ۔اے یارکے غم میں تجھے کسی کو بھی دینے کے لیے تیارنہیں ہوں کہ تم میرے دل کے ٹوٹے ہوئے برتن کاریحان ہو۔
ٹوٹاہوابرتن بڑے کمال کی تشبیہ ہے، گھروں میں جب کوئی برتن، ہانڈی، گھڑا یاکڑاہی وغیرہ بے کار ہوجائے تو عورتیں اس میں مٹی ڈال کر ریحان کاپودالگادیتی ہیں اورگھر کی دیوار پررکھ دیتی ہیں ۔میرااپناشعر۔
خلق دزڑہ پہ مات کودی کے کشمالونہ کری
زکہ خو ورلہ دمینے خاپیری نہ رازی
ترجمہ۔لوگ اب دلوں کے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں ریحان نہیں بوتے، اس لیے تواب یہاں محبت کی پریاں نہیں آتیں۔
خیرتو ایک دن میں اکیلاتھا ،سوچاآج اس گملے والے بوڑھے سے ملاجائے،سیڑھیاں چڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایاتو ایک نوجوان نے دروازہ کھولا،میں نے کہا کہ میں اس بزرگ سے ملناچاہتاہوں جو بالکنی میں بیٹھا رہتاہے، تھوڑی سی دیرکے بعدوہ راضی ہوا اورمجھے بالکونی میں اس کے پاس لے گیا وہ بہت خوش ہواکہ مدتوں بعد کوئی اس سے ملنے آیاتھا۔میں نے گملے اور پودے کے بارے میں پوچھا تو وہ ایک لمبی سانس لے کر بولا، کیا کروں جب تک دم خم تھا ہر جگہ پھرتا رہا۔ اب چلنے کایارانھیں ہے تو اس گملے سے دل بہلایاکرتاہوں ۔
ہمارے علاقے کاایک بہت دولت مند شخص تھا، ٹھیکیداربھی تھا، ٹرانسپورٹربھی اوربہت بڑازمینداربھی، اس کی دولت جائیدادوں اورکاروباروں کی کوئی حد نہ تھی، لوگ دولت مندی میں اس کی مثال دیتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک جرگے کے سلسلے میں اس کاساتھ ہوا، جرگہ قبائلی علاقے میں تھا اوروہاں رات کو رکناتھا، دوپہرکے بعد شام کے کھانے پر اس نے صرف سلاد کھایا،جب کہ دسترخوان انواع واقسام کے گوشت اورپکوانوں سے بھرا تھا اورمیںنے جی بھر کر کھایا۔رات کو ہم ایک کمرے میں سوئے، پہلے تو اس نے چارپانچ گولیاں پھانکیں پھر کانوں میں روئی کے پشم ٹھونسے اورآخرمیں آنکھوں پر کالارومال باندھ کر لیٹ گیا، میں تو جی بھرسویالیکن وہ رات بھر کروٹیں بدلتا اورہڑبڑاتا رہا۔
صبح میں نے پوچھا،آپ توساری رات بے آرام تھے، اس نے کہا،ہاں اپنے گھر میں جو میری خواب گاہ ہے ساؤنڈ پروف ہے، اگر ذراسی کوئی آوازیاروشنی آتی ہے، تو مجھے نیند نہیں آتی ۔میں نے کہا تو خواب آورگولیاں کھایا کریں، بولا،کھاتا ہوں لیکن اب وہ بھی اثرنہیں کرتیں،صبح اس نے ناشتے میں سوکھی روٹی اورپھیکی چائے پی لی تھی ،ان واقعات سے میں یہ بتاناچاہتاہوں کہ آج کا بدقسمت انسان اس لیے تکلیف میں مبتلاہے کہ وہ ’’خوشی ‘‘باہر ڈھونڈ رہاہے، دولت میں جائیداد میں، اقتدار میں۔لیکن خوشی باہر کہیں نہیں ہے، اندر سے آتی ہے اورجب آتی ہے تو جھلنگی چارپائی اورایک گملے سے بھی آجاتی ہے ۔
ہماراایک دوست ہے، وہ کہتاہے کہ غم اورخوشی بہن بھائی ہیں، لوگ ’’بہن‘‘ کے نادیدہ حسن کی شہرت سن کر اس کے عاشق ہوجاتے ہیں، طرح طرح کی تکالیف سہہ کر اورسخت مقامات وامتحانات سے گزر کر اس کادروازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن بہن کی بجائے ’’بھائی ‘‘دروازہ کھول کر اسے گلے لگاتاہے ۔
جنھیںمیں ڈھونڈتاآسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں