88

شرافت بمقابلہ بدمعاشی

سیاست میں شرافت کافیکٹر بہت اہم ہوتا ہے۔ جب سیاست بدمعاشی کا روپ دھار لیتی ہے تو انارکی اور تباہی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔ کراچی میں بھی گزشتہ پچیس سال سے ایسی ہی بدمعاشی کی جاتی رہی، نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔

یہ شہر پاکستان کے باقی شہروں سے بہت پیچھے رہ گیا۔ جو مقبولیت آج خان صاحب کو سارے ملک میں حاصل ہے وہ کبھی ایم کیو ایم کو کراچی میں حاصل تھی اور وہ اس مقبولیت کے بل بوتے پر ہر وقت اُسی طرح دھونس اور دھاندلی مچایا کرتی تھی جس طرح آج PTI مچا رہی ہے۔

 

کراچی کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1986 سے لے کر 2014 تک اس شہر میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ 28 سالوں تک یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ جو امن وسکون کبھی اس شہرکا خاصا ہوا کرتا تھا سب تباہ و برباد ہوگیا۔

ہر روز کوئی نیا جھگڑا اور کوئی نیا فتنہ، کبھی تین تین دن تک احتجاج کی کال اور کبھی کسی کارکن کی شہادت کو لے کر سوگ اور ماتم۔ احتجاج سے ایک دن پہلے ہی پچاس ساٹھ گاڑیاں جلا کر لوگوں کو خوفزدہ کر دیا جاتا تھا۔ ہر عید اور قومی تہوار کے موقع پرکوئی نہ کوئی فساد برپا کر دیا جاتا تھا۔ عیدالاضحی کے دن قربانی کی کھالیں تک چھین لی جاتی تھیں۔

اس پورے عرصے میں اس شہر نے اپنا بہت نقصان کیا۔کہنے کو ایم کیو ایم کو عوامی مینڈیٹ بھی حاصل تھا لیکن اس مینڈیٹ نے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل گھمبیر ہی کیے۔ آج کچھ ایسی ہی مثال ہم ملکی سطح پر دیکھ رہے ہیں۔ 2014 سے ایک قومی سطح کی پارٹی نے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی سیاست کے سوا کچھ نہیں کیا۔

کہنے کو اس پارٹی کی قیادت کو بھی وہی مقبولیت حاصل ہے جو کبھی ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو حاصل تھی۔ اس کے نام سے کھڑا ہونے والاخواہ کوئی بھی ہو جیت اس کا مقدر ہوا کرتی تھی۔ لوگ اس کے نام پر کھمبے کو بھی ووٹ ڈال کر آ جایا کرتے تھے۔ اُس میں اور خان صاحب میں فرق یہ ہے کہ اس کی مقبولیت صرف سندھ کے شہروں کی حد تک محدود تھی جب کہ خان صاحب کو سارے ملک میں مقبولیت حاصل ہے۔

خان صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمارے دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ ہینڈسم اور جوان نظر آتے ہیں۔ اُن کو فی البدیہہ بولنے میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے۔ اُن کے چاہنے والوں میں اکثریت اُن نوجوانوں کی ہے جنھیں تازہ تازہ ووٹ ڈالنے کا حق ملا ہے یعنی اُن کی عمریں اٹھارہ سال کے لگ بھگ ہے۔ اور وہ بوڑھوں اور عمر رسیدہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جذباتی اور سرگرم ہیں۔

خان صاحب سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس وقت بہت کم ہے وہ اگر چار پانچ سال ضایع کر دیتے ہیں تو  ان کا سیاسی نقصان ہو گا۔ وہ ایک بار وزیر اعظم کے منصب سے لطف اندوز ہو چکے ہیں ۔ وہ ہر قیمت پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ 1996 سے لے کر 2011 تک وہ ملک بھر میں بہت محنت کرتے رہے ہیں۔

ہمارے یہاںسیاست میں بد تہذیبی پہلے کبھی اتنی نہیں ہوا کرتی تھی جتنی آج کل ہے۔ اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بد تہذیبی کس نے پیدا کی ہے۔ کس نے اپنے کارکنوں کو ایسی حرکتوں پر شاباشی بھی دی اور تھپکیاں بھی۔ کس نے 2014 میں 126دنوں تک اسلام آباد بندکیے رکھا۔ کس نے لوگوں کو پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھائی کرنے کی ترغیبیں دیں۔

کس نے جلاؤ گھیراؤ اور آگ لگا دینے کی باتیں کیں۔ کس نے سارا ملک بند کر دینے کی دھمکیاں دیں۔کس نے PTV پر حملے کروائے اور کون اپنے کارکنوں کو مخالفوںکے خلاف اکساتا رہا ہے۔ کس نے سیاست میں بدمعاشی کا فیکٹر شامل کروایا ہے اور کون اداروں کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔

وطن عزیز کا یہ حال دیکھ کر ہر محب وطن شہری  افسردہ ہے۔ ہم جہاں معاشی طور پرکنگال اور دیوالیہ ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف اخلاق اور شائستہ اقدار سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم بحیثیت ایک قوم زندگی کے ہر شعبہ میں تنزلی اور بربادی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ دھونس اور دھمکیوں کی سیاست کو دیکھتے ہوئے اب دیگر سیاسی جماعتیں بھی یہی روپ دھارنے کا عندیہ دینے لگی ہیں۔ وہ بھی عدلیہ اور قومی اداروں کو للکارنے لگی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ادارے ایسی ہی زبان سمجھتے ہیں۔

ہمارے عوام بھی شاید اُسی سے متاثر ہوتے ہیں جو ایسے طور طریقے بروئے کار لا کر اداروں کو اپنے دباؤ میں لے آتا ہے۔ جو اپنے مخالفوںکو غیر شائستہ ناموں سے پکارتا ہو۔ شرافت اور بردباری کی سیاست کا زمانہ لد گیا۔

اب بدمعاشی کا جواب بدمعاشی سے دیا جائے گا۔ مسلم لیگ نون کے بدلتے اطوار بھی یہی عندیہ دینے لگے ہیں۔ وہ بھی اب وہی زبان بولنے لگی ہے جو خان صاحب اور اُن کے ساتھی بولا کرتے ہیں۔

مسلم لیگی ارکان کی جانب سے تند و تیز بیانات کچھ ایسی ہی سیاست کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے بقول اب مسلم لیگ نئی مسلم لیگ بن کر سامنے آئے گی۔ جو جیسا کرے گا اُسے ویسا ہی جواب دیا جائے گا۔ عمرانی فیکٹر کامیاب ہوتا دکھائی دینے لگاہے۔ لہٰذا مسلم لیگ نون کے جوان کارکنوں نے جیسے کو تیسا کی سیاست اپنانا شروع کر دی ہے۔مسلم لیگی قیادت نے بھی اب فیصلہ کر لیا ہے کہ بہت ہو گئی شرافت، اب بدمعاشی کا جواب بدمعاشی سے دیا جائے گا۔

ملک کی یہ صورتحال دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم جہاں ایک طرف معاشی و اقتصادی طور پرکنگال اور ڈیفالٹ ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی اور اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ہمارے دشمنوںکو اب ہمیں جنگ کرکے شکست دینے کی ضرورت چنداں نہیں رہی، ہم خود ہی ان کا کام آسان کرنے جا رہے ہیں۔ سیاست کے علم برداروں سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ قوم کی حالت پر خدارا رحم کرو اور ہوش کے ناخن لے کر کوئی متفقہ حل تلاش کرو اور عوام کو اس ذہنی کوفت اور اذیت سے باہر نکالو۔