58

زراعت،آئی ٹی اور برآمدات۔۔۔!

  خالد خان

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں اگلے چودہ مہینوں میں ترجیجی  بنیادوں پرتین منصوبوں پر دن رات محنت اور لگن سے کام کرنے کا اعلان کردیاہے۔(الف) زراعت، (ب) انفارمیشن ٹیکنالوجی،(ج)ایکسپورٹ بیس انڈسٹری۔عصر حاضر میں یہ تینوں شعبہ جات اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے ملک ترقی کرسکتا ہے اور قوم کو قرضوں کی چنگل سے نجات مل سکتی ہے۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔پاکستان کی اکثر یت آبادی کسی نہ کسی طور پر زراعت سے وابستہ ہے لیکن بہتر پلاننگ نہ ہونے سے وطن عزیز پاکستان میں زرخیز زرعی زمین سکڑ رہی ہے۔ پاکستان میں زرخیز زرعی زمینوں پرہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں ایکٹر زمین جہاں پر لہلہاتے فصلیں ہونے چاہییں تھیں لیکن اب وہاں پر گھر بنائے جارہے ہیں،اس سے جہاں خوراک،اجناس اور فصلوں کی کمی کا سامنا ہے،وہاں ماحولیاتی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔بلاشبہ ملک کی آبادی سرعت سے بڑھ رہی ہے، اس کے لیے رہائشگاہوں اور گھروں کی ضرورت ہے لیکن ان کیلئے زرخیز زرعی زمینوں کے بجائے شہروں میں بلندعمارتیں بنانی چاہییں اور بنجرزمینوں پر پلاننگ کے تحت نئے شہر آباد کرنے چاہییں۔ زراعت کی ترقی کیلئے سستی بجلی، ادویات، کھاد،گیس اور سستے پٹرولیم مصنوعات ہونی چاہییں لیکن سابق اور موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات پران سب چیزوں کو مہنگا ترین کردیا ہے، اس سے کاشت کاروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے،ایسی صورت میں زراعت کے شعبے میں ترقی کیسی ہوگی؟زراعت کے شعبے کی ترقی کیلئے ملک میں درج ذیل کام انتہائی ضروری ہیں۔(الف) زرخیز زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیموں کی مکمل اور عملی پابندی لگائیں اور جہاں زرخیز زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی گئی ہیں،ان کو ختم کرکے وہاں پر فصلیں کاشت کی جائیں۔ علاوہ ازیں قانون سازی کے ذریعے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیم بنانا قانوناًجرم قرار دیا جائے۔ (ب)زراعت کی ترقی کیلئے بجلی، ادویات، کھاد،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم سے کم کیجائیں۔ (ج) کاشتکاروں کو جدید زرعی آلات فراہم کیے جائیں یا ان کو زرعی آلات خریدنے کیلئے قرض حسنہ دیا جائے۔(د)کاشتکاروں کی جدید زراعت کیلئے تربیت کا اہتمام کیا جائے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم شعبہ ہے، اس شعبے کی طرف توجہ دینے سے ملک کے حالات بہتر ہوجائیں گے۔اس سلسلے میں نوجوانوں کی تربیت ناگزیز ہے۔نوجوانوں کو صرف ڈگریاں نہ دیں بلکہ ان کو ہنرمند اور تربیت یافتہ بنائیں۔ملک میں ہر سال لاکھوں جوان ڈگریاں لیتے ہیں لیکن ڈگریوں کے حصول کے بعد وہ بے روزگار ہوتے ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ڈگریوں کو صرف کاغذ کے ٹکڑے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ ڈگری صرف ان کو دی جائے جن کے پاس قابل عمل فیوچر پلان ہو اور عملی زندگی میں کام کرسکیں۔ وزیراعظم نے تیسرے اہم شعبہ ایکسپورٹ بیس انڈسٹری کا ذکر کیا جو خوش آئند ہے۔درآمدات زیادہ ہونے کے باعث ملک میں روپیہ کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت زیادہ ہے۔درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے سے ڈالر کی بے توقیری کی جاسکتی ہے۔ حکومت اور عوام امپورنڈاشیاء کی بجائے مقامی اشیاء کو ترجیج دیں گے تواس صورت میں درآمدات کم کی جاسکتی ہیں۔ بجلی، گیس،پٹرولیم مصنوعات کی قمیتیں زیادہ ہونے اور ٹیکسوں کی بھرمار ایکسپورٹ میں رکاوٹ ہے۔ ایکسپورٹ بیس انڈسٹری کیلئے سستی اور معیاری اشیاء تیار کرنا ضروری ہیں۔انڈسٹری کی ترقی کیلئے سستی بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹیکس بھی کم ہوں لیکن اشرافیہ کی عیاشیوں اور آئی ایم ایف کے احکامات کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہے تو پھر ایسی صورت میں ایکسپورٹ بیس انڈسٹری کیسے کامیاب ہوگی؟ واضح ہو کہ کوئی چیز ناممکن نہیں ہے لیکن کسی مشکل چیز کو ممکن بنانے کیلئے محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اسد عمر، حفیظ شیخ، شوکت ترین اور مفتاح اسماعیل وغیرہ کی سوچ آئی ایم ایف تک محدود ہے۔یہ پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی مہنگی کرسکتے ہیں، ڈالر کو بے لگام کرسکتے ہیں اور جائزو ناجائز ٹیکس لگاسکتے ہیں لیکن ملک اور عوام کی حقیقی ترقی کیلئے اقدامات نہیں اٹھاسکتے۔ پٹرولیم مصنوعات، گیس اور مہنگی بجلی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے ملک و ملت کی حقیقی وپائیدارترقی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے ملک کنگال اور لوگ غریب ترین ہونگے۔ملک و ملت کی حقیقی ترقی کیلئے اشرافیہ کو دی گئی سبسڈی (مفت پٹرول، گیس، بجلی، فون، ٹریول،علاج وغیرہ دیگر جائزو ناجائز مراعات) ختم کریں۔ صنعتوں اور زرعت کو سستی بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات فراہم کریں،ناجائز ٹیکسوں کو ختم کریں۔ نادرا شناختی کارڈ کے ہرہولڈر کو فائلرقرار دیں۔ سیل ٹیکس ہو یا کوئی اور ٹیکس، فائلر کے کھاتے میں خودکار نظام کے ذریعے ظاہر ہو۔فائلر سسٹم آسان ترین بنائیں تاکہ آسان ترین ایپ کے ذریعے ان کے ٹیکس جمع ہوں اور ان کا ریکارڈ اپ ڈیٹ ہو۔پچاس ہزار روپے کی خرید وفروخت کیلئے نادرا شناختی کارڈ ضروری قرار دیں۔ٹیکس کا نظام واضح اور شفاف بنائیں۔ایف بی آر کے افسران اور ملازمین کے اثاثوں کے چیک اینڈ بیلنس کے لئے موثر نظام ہو۔ زرعی زمینوں پرہاوسنگ اسکیمیں ختم کرکے پراپرٹی ڈیلرز اور پراپرٹی میں سرمایہ لگانے والے سرمایہ کاروں کو آئی ٹی، صنعتوں اور دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔سٹیل مل، ریلوے،پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کی جائے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کے افسران اور ملازمین کماحقہ فرائض سرانجام نہیں دیتے۔حکومت ریلوے کی زمین کو کاشتکاروں اور سرمایہ کاروں کو فروخت کریں لیکن ان کو پابند کیا جائے کہ وہ اس زمین پرکاشتکاری کریں اور سرمایہ داراس زمین پر انڈسٹری لگائیں۔قارئین کرام! وزیراعظم نے تین اہم منصوبوں کی نشاندہی کی ہے،اخلاص اور محنت سے ان شعبوں کی ترقی پر کام کیا جائے تو ملک و ملت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔واضح ہوکہ دنیا میں محنت اور لگن سے کام کرنے والوں کیلئے ہر چیز ممکن ہے۔