56

ہم کون لوگ ہیں؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ایک فاحشہ عورت نے گرمی کے دنوں میں ایک کتے کو ایک کنویں کے گرد چکر لگاتے دیکھا جس کی پیاس کی وجہ سے زبان باہر ہوئی تھی ، اس عورت نے اپنے موزے میں پانی لے کر اس کتے کو پانی پلایا تو اس کی بخشش کردی گئی۔( مسلم ) 

آج یہ حدیث پاک فیس بک پر دیکھی تو  کچھ سال قبل کی بات یاد اگئی ۔ میں ایک سلسلہ تصوف کے ساتھ بڑی شدت سے منسلک تھا اور شدید بلکہ متشدد صوفی تھا۔ اسی سلسلے میں میری ذمہ داری ہر ہفتے گھر پر درود پاک کا ختم شریف منعقد کرنا  اور آنے والے ساتھیوں کو سیرت النبی کریمﷺ کے واقعات سنانا، صحابہ کرام کے ایثار کے واقعات سنا کر ان کے درمیان باہم اخلاق اور ایثار کا تعلق مضبوط کرنا تھا۔۔ اور سچی بات یہ ہے کہ یہ کام میں نے خود پر خود ہی لاگو کیا تھا۔ 

ایک روز میرے پاس ایک باشرح اور صوفی دوست جو کہ سیدزادہ بھی ہے۔۔ آیا اور کہنے لگا ،

لالا جان!! آپ سے کچھ اکیلے میں بات کرنی ہے۔۔ کچھ غلط ہو گیا ہے ۔ پریشان ہوں۔۔ چونکہ وہ ایک استاد تھا تو میں ڈر گیا کہ کہیں ۔۔۔۔۔ اسکول میں ۔۔۔۔۔

خیر ڈرتے ڈرتے  اکیلا بیٹھ تو گیا ۔۔ لیکن یہ سوچ رہا تھا کہ نا جانے اگر جو میں سوچ رہا ہوں وہ یہ بولا تو اس کا کیا جواب دوں گا؟؟؟ 

وہ بولا۔ لالا جان حضور۔۔  میری ایک خاتون ٹیچر ہیں۔۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔۔ میں نے شکر کا سانس لیا کہ معاملہ اس حد تک پیچیدہ نہیں۔۔ 

اچھا!!! میں نے حیرت سے کہا۔۔ وہ بولا ۔۔ لالا جان وہ میری ٹیچر رہی ہیں۔۔ اور پرائمری میں مجھے پڑھایا ہے۔۔ میرے دل میں آیا کہ اب اسے لعنت دوں کہ وہ تو الوو ماں برابر ہے۔۔اور تم۔۔۔۔ میں بگڑ گیا اور بولا شرم کر۔۔ اگر تو سید نہ ہوتا تو منہ نوچ لیتا تیرا۔۔ 

وہ میرے جلال سے گھبرا گیا۔۔ اور بولا۔۔ لالا غصہ کرنے سے پہلے میری پوری بات سن لیں۔۔ 

چونکہ مجھے اپنے کشف پر پورا بھروسہ تھا ۔۔لیکن دلجوئی کی خاطر اسے سننے لگا۔۔ 

وہ بولا۔۔ میری یہ ٹیچر مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔۔ اور میں بھی ان کا والدہ کی طرح احترام کرتا ہوں۔۔ کبھی کبھار ہمارے گھر اجاتی ہیں ۔۔ جو پانی وغیرہ کھانا ہو میں پیش کر دیتا ہوں۔۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے گھر آئی تو کہا بیٹا میری کچھ مدد کر دو۔۔ میرے پاس اس مد میں پیسے پڑے ہوتے ہیں میں نے سارے ان کو دے دئیے۔۔ 

میری چونکہ کشف والی منزل خراب ہو چکی تھی تو میں نے جلال میں پوچھا اس میں تم سے غلط کیا ہوا ۔۔ میرا وقت برباد مت کرو جلدی بول۔۔ اوئے شاہ جی۔۔( شائد احترام شاہ جی بھی میرے جلال میں بہہ گیا)

وہ بولا۔۔لالا جان جب وہ جانے لگیں تو مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ وہ تو اہل تشیع  سے تعلق رکھتی ہیں۔۔ 

تو۔۔ میری آنکھیں ابل آئیں

تو!!! لالا ۔۔۔ مجھے تو ہمارے امیر صاحب نے بتایا تھا کہ ان پر خیرات نہیں ہوتی۔۔یہ اسلام سے خارج ہیں۔۔ اب بتائیں مجھے دوبارہ سے  خیرات کرنا ہو گی۔۔ اور جو گناہ ہوا وہ کیسے معاف ہو گا؟؟؟ 

میرے کان کی لوئیں  سرخ ہو گئیں۔۔ اور میں پھٹ پڑا ۔۔ اوہ۔۔ اللہ کے بندے ۔۔ کیا اہل تشیع اللہ کو مانتے ہیں۔۔ وہ بولا جی۔۔ کیا نبی کریمﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔۔ وہ بولا جی۔۔ میں نے کہا تم خود کو سید کہہ کر اہل بیت میں شامل ہو کر عزت کراتے ہو۔۔ وہ اہل بیت کو مانتے ہیں ؟؟ وہ بولا جی۔۔ پھر تم نے کیسے سوچ لیا کہ وہ اسلام سے خارج ہیں۔۔ اللہ کے بندے یہ کیا بات تم نے کر دی؟؟؟ کہاں گئی میری تمام 4 سال کی محنت۔ کہاں گئی حضور نبی کریمﷺ کی تعلیمات۔۔ وہ بولا وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔ بکواس بند کر ۔۔ میں بولا اور ماضی کے جھرکوں میں کھو گیا۔۔۔

اور میں بولا۔۔۔

اللہ کے بندے ۔۔ جب ہم چھوٹے تھے تو گرمیوں کے روزے ہوا کرتے تھے۔۔ حکومت نے سر عام کھانے پر پابندی لگا دی تو عیسائی اور ہندو خاکروب بے چارے خوار ہو گئے۔۔ باہر کھانا پانی نہیں ملتا تھا۔۔ اگر کسی کو پانی پیتا یا کھاتا دیکھ لیا جاتا تو مذہبی جنونی یہ پوچھے بغیر کہ وہ مریض ہے ، کئی دنوں کا بھوکا نادار ہے۔  یا غیر مسلم۔۔ اس کی خوب دھلائی کرتے ۔۔ کئی بے چارے مریض تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔ جن کو پولیس پکڑ لیتی انہیں حکومت کوڑے مارتی۔۔ 

لیکن میرے والد اور والدہ نے  گھر اور دفتر میں یہ اصول رکھا تھا کہ اگر غیر مسلم خاکروب یا کوئی مانگنے والا آتا تو والدہ اسے گرم روٹی بنا کر دیتیں۔۔ خود روزے سے ہوتے ہوئے بھی ہماری خاکروب اور گھر کی صفائی والی کے لئے اسی طرح 11 بجے چائے اور پاپے یا فجر کا پراٹھا دیتی جیسے رمضان سے پہلے ۔۔ خود ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیا کرتیں۔ بابا میرے کے دفتر میں ہر ضرورت مند کو کھانا چائے پانی بے دھڑک ملتا۔۔ اور یہ بغض پرست مولوی میری والد صاحب کے دفتر کی طرف بھی نہیں دیکھتے۔۔ کیونکہ ان کے روزہ میں ان سے السلام علیکم کے علاوہ بات کا مطلب پورے خاندان۔ نسل اور قوم کی عزت افزائی۔۔ لہذا سب کہتے خان صاحب روزے میں بہت گرم ہوتے ہیں ۔۔ اسی طرح ایک دن والدہ بڑی چادر کر کے والد صاحب کے ساتھ جا رہی تھیں ۔ کہیں سے ایک ملنگ نے اماں کو دیکھنا شروع کر دیا۔۔ بڑا جلالی ملنگ تھا ۔۔ بڑی بڑی آنکھیں نکال کر اماں کو گھور رہا تھا۔۔ اماں خود بھی بہت سخت تھیں ۔اس سے پہلے کچھ کہتیں  بابا کی نظر اس ملنگ بے چارے پر پڑ گئی۔  اس سے پوچھا کیوں میری بیوی کو دیکھ رہے ہو۔۔ وہ بولا ۔۔ جا دفع ہو جا ۔۔ بابا کی مرضی جسے دیکھے۔۔ بس پھر ۔۔۔ پوری مارکیٹ نے بابے کی چیخیں سنیں۔۔ بابے کا جلال اتر گیا۔۔ کیونکہ میرا بابا اس پر چڑھ دوڑا۔۔ اماں نے اس بے چارے ملنگ کی جان چھڑائی۔۔ 

میری اماں اور بابا کہتے تھے ۔۔ بیٹا ۔۔۔ انسان تو بہت بڑا ہے ۔۔ چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔۔اور مسلمان تو چاہئے کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو بیٹا وہ رشتہ دار کے برابر ہے۔۔ بلکہ رشتہ دار سے زیادہ عزت کے لائق۔۔ کیونکہ رشتہ دار سے کمی بیشی کی معذرت کی جا سکتی ہے۔۔ اکرام مسلم اگر نہ ہوا تو اس کی معافی نہیں۔۔ 

والدہ روزوں کی گرم دوپہر میں خاکروب کے آنے سے پہلے اس کی روٹی بنا کر رکھتی۔۔ کہ پتہ نہیں صبح سے بھوکا ہی نہ ہو۔۔ کسی نے شائد بے چارے سے پانی بھی پوچھا ہو یا نہیں۔۔ اور والد صاحب مجھے شدید سختی سے یہ کہتے کہ ڈرائیور، مالی کے ساتھ کھانا کھایا کرو اگر کھانا نہیں کھانا تو اس کے ساتھ بیٹھو۔۔ جب تک وہ کھانا نہ کھا لے۔۔ 

والدہ گرمیوں میں ٹھنڈا پانی اور سردیوں میں چائے ہمیشہ کام پر آنے والے مزدور،نوکر یا عیسائی ہندو کو دیتیں۔۔  اور خود ہی کہتیں۔۔ اگر کنجری کتے کو پانی پلا کر جنتی ہو سکتی ہے۔۔ تو مالک میں تو تیرے بندوں کی خدمت کرتی ہوں۔۔ میری بھی مغفرت کرنا۔۔  

میں نے شاہ جی سے کہا شاہ جی۔۔ یہاں جب طوائف کی مغفرت کتے کو پانی پلانے پر ہو گئی ۔۔ اور تو مسلمان پھر اپنی استاد اور پھر ماں کا درجہ کی خاتون پر سوچ میں ہے۔۔ یہ قصور ہماری تربیت کا ہے۔۔ کسی مسلک یا فرقے کا نہیں ۔؟؟؟دراصل میں خود اپن روحانی تربیت پر بھی شرمسار ہو رہا تھا کہ میرا اپنے اندر کے غلیظ نے کشف کے نام پر کیا کیا کہانیاں بات سننے سے پہلے ہی بنا لیں۔۔ ہم جب کسی بھی سلسلے یا مسلک یا فرقے یا قومیت سے زیادہ قریب ہوتے ہیں تو بجائے انسانیت بڑھانے کے مرتبے بلند کر لیتے ہیں پھر دوسرے ہمیں غلیظ۔غلط اور نیچ  دکھتے ہیں۔۔ دراصل ہم اس وقت اس طوائف سے بھی کمتر ہو جاتے ہیں جس کو کتے پر ترس آگیا تھا۔۔۔۔

یہ جب سے ہم نے مذہب کو چند مخصوص عبادات اور عقیدتوں کے رنگ میں دیکھنا شروع کیا ہے سیکھ خراب ہو گیا۔۔ ورنہ پہلے ایک ہی محلے میں نیاز کی گھی لگی روٹیاں بھی کھائی جاتی تھیں۔۔ پھر محرم کی کھیر ، کونڈوں کو چھپ کر کھاتے۔۔ربیع الاول  کی جھنڈیاں تمام محلہ مل کر لگاتا۔۔ اور کرسمس پر ہماری نوکرانی اپنے ہاتھ کا بنا کیک لایا کرتی اور کبھی بھی کسی کو یہ نہ لگتا کہ کون کمتر ہے۔ ہمارا ترازو اس وقت صرف اخلاق تولا کرتا تھا۔۔ مذہب اور مسلک نہیں۔۔ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی جارہاتھا، اس دوران اسے سخت پیاس لگ گئی، چناں چہ وہ کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا، کنویں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہاہے اور شدتِ پیاس سے کیچڑ کو چاٹ رہاہے، اس شخص نے (دل میں) کہا: اسے (کتے کو) بھی ویسی حالت پہنچی ہے جیسی مجھے لاحق ہوئی، چناں چہ اس نے (کنویں میں اتر کر) اپنا موزہ  پانی سے بھرا، پھر  اسے (موزے کو) اپنے منہ میں پکڑا، اور اوپر چڑھا (کیوں کہ کنویں میں چڑھنے کے لیے سیڑھیاں نہیں تھیں، اور دونوں ہاتھ اور پاؤں کنویں سے باہر آنے کے لیے استعمال کرنے پڑے، اور کتے کے لیے پانی بھرا موزہ منہ میں مضبوطی سے تھامے رکھا) اور کتے کو سیراب کیا، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر فرمائی اور اسے بخش دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہمارے لیے ان جانوروں میں بھی اجر و ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر تر جگر والی (ذی روح) مخلوق (کو کھلانے پلانے) میں اجر ہے۔" (بخاری) 

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!