46

ضمنی انتخابات کا دنگل

عمران خان کے بعد شیخ رشید نے بھی چیلنج کیا ہے کہ ’’ہمت ہے تو غداری کا مقدمہ بناکر دکھائو‘‘۔  اُدھر وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی پر غور کے لئے وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔ 
جواباً عمران خان نے کہا ہے کہ ’’لگائو مجھ پے آرٹیکل6 میں وہ باتیں بھی بتائوں گا جو ابھی قوم کو نہیں بتائیں، یہ بھی کہا کہ کیس بنانے میں دیر نہ کریں اور سری لنکا کا حال بھی  دیکھ لیں‘‘۔

 تحریک انصاف کے قائدین آجکل سری لنکا کے حالات کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے یہ وہی سری لنکاہے  ماضی میں جس کے دورہ سے وطن واپسی پر عمران خان یہ  کہتے دیکھائی دیئے کہ  سری لنکن صدر سے غربت کے خاتمے کے حوالے سے مفید معلومات ملی ہیں ان پر عمل کرکے پاکستان سے غربت ختم کریں گے۔ 
پتہ نہیں انہوں نے غربت مکائو کے سری لنکن پروگرام سے اپنے دور میں سنجیدگی کے ساتھ استفادہ کیوں نہیں کیا۔ کرلیا ہوتا تو غربت اور غریب میں ایک تو ختم ہو ہی گیاہوتا۔ 
خیر اس دلپشوری قصے کو الگ سے اٹھارکھیں۔ 
فی الوقت  صورتحال یہ ہے کہ آج اتوار کو پنجاب اسمبلی کی 20نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کیلئے جاری انتخابی مہم گزشتہ سے پیوستہ شب ختم ہوگئی۔ مہینہ بھر کے قریب خوب رونق لگی رہی۔ تقاریر، بندوں اور موبائل کی روشنیوں کا شاندار مقابلہ ہوا۔ جن 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات آج ہونے ہیں ان نشستوں سے 2018ء میں منتخب ہونے والے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے وقت فلور کراسنگ کرتے ہوئے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا تھا بعدازاں فلور کراسنگ کے قانون کے تحت نااہل ہوگئے۔ 
20میں سے دو سابق ارکان ان میں علیم خان بھی شامل ہیں ضمنی انتخابات میں امیدوار نہیں ہیں باقی سترہ  ارکان میدان میں ہیں۔ ایک سابق رکن اسمبلی نے اپنی جگہ بھائی کو (ن) لیگ کا ٹکٹ دلوایا۔ 
انتخابی مہم الزامات کے تکرار سے شروع ہوئی۔ بیچ میں ہلکے ہلکے سُروں میں ایک دوسرے کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
 پنجاب اسمبلی کے 25  ارکان فلور کراسنگ پر نااہل ہوئے ان میں 10وہ آزاد ارکان بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں آزاد  حیثیت سے بڑے مارجن پر (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دی تھی بعدازاں وہ جہانگیر ترین کی کوششوں سے پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے۔ 
جہانگیر ترین کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس وقت (2018ء میں) ایک خاص محکمے کی شفقت بھی شامل تھی یہ وہی محکمہ ہے جس نے گزشتہ متعدد ادوار میں پنجاب سے آزاد  حیثیت سے جیتنے والوں کو (ن) لیگ کی طرف ’’ہانکا‘‘ تھا۔

 

 2018ء میں یہ محکمہ پی ٹی آئی پر مہربان تھا آجکل پی ٹی آئی اور اس میں ’’ٹھنی‘‘ ہوئی ہے۔
 الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ  محکمہ پی ٹی آئی کے مخالفوں خصوصاً (ن) لیگ پر مہربان ہے۔ 
فقیر راحموں کہتے ہیں ’’اصل جھگڑا ویسے ہے بھی یہی کہ جب ہم خدمت کر ہی رہے تھے تو بس کی سواریاں بدلنے کی ضرورت کیا تھی‘‘۔
 انتخابی مہم میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے ’’ثبوت‘‘ میں دھواں دھار تقاریر کیں۔ عمران خان مستقل ایک ہی بات کررہے ہیں ’’امریکہ نے سازش کی مقامی میر جعفر اور میر صادق سہولت کار بنے اور ہماری حکومت گرائی گئی یہ ملک کے خلاف سازش ہے اس کے کردار غدار ہیں‘‘۔ 
ضمنی انتخابات سے تین دن قبل سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی سپیکر قائم سوری کی رولنگ پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 
اس فیصلے کے سامنے آنے پر حکمران اتحاد کے بڑے بھی دل کھول کر انصافی قیادت کو غدار قرار دے رہے ہیں۔ (ن) لیگ بظاہر یہ تاثر دے رہی ہے کہ عمران خان اور ان کے متعدد ساتھیوں پر آرٹیکل 6کے تحت کارروائی لازمی ہونی چاہیے کابینہ کی کمیٹی اسی لئے بنائی گئی ہے۔
 سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے پر اونچے سُروں میں فواد چودھری نے ’’راگِ بغاوت گاتے ہوئے دعویٰ کیا لگائیں آرٹیکل 6 گلے زیادہ ہیں رسیاں کم پڑجائیں گی‘‘۔ 
چند ماہ قبل وزیر اطلاعات اور وزیر قانون کی حیثیت سے فواد چودھری غداری کا سرٹیفکیٹ ایسے اچھالتے پھرتے تھے جیسے سڑک کے کنارے مجمع لگانے والا مداری ایک اسٹک سے 6پلیٹیں اچھالتا اور داد لیتا ہے۔
 اب وہ پچھلے چند دن سے کہتے پھرتے ہیں آرٹیکل 6لگانا  کوئی مذاق ہے، کیسے مجھے غدار قرار دیا (فواد ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے وقت وزیر قانون بھی تھے) کوئی ان سے یہ ضرور پوچھے کہ جب آپ مخالفین کو غدار قرار دیتے پھرتے تھے تو کیا وہ مذاق تھا؟ 
سائبر کرائم کے قوانین کو مزید سخت بناکر مخالفین کی گردن ناپنے اور میڈیا اتھارٹی بل کے ذریعے  ملک کے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کا شوق کیوں چرایا تھا؟
معاف کیجئے گا بات اصل موضوع سے کچھ ہٹ سی گئی۔ ہم آج پنجاب اسمبلی کی 20نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کی بات کررہے تھے۔ فلور کراسنگ کے قانون کی زد میں تحریک انصاف کے 25ارکان آئے تھے 20 جنرل نشستوں کے اور 5مخصوص نشستوں کے۔ مخصوص نشستوں کے لئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے متبادل ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے لیکن یہ معاملہ ایک قانونی نکتہ کی تشریح کے لئے عدالت میں بھی زیرسماعت ہے آج اس وقت پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے پانچ ارکان کو ملاکر پی ٹی آئی جمع ق لیگ کے پاس 171 ارکان ہیں جبکہ (ن) لیگ جمع اتحادی 175سے کم ہوکر 173 ارکان رہ گئے ہیں۔ (ن) لیگ کے بہاولنگر سے ایک رکن دو روز قبل عدالت سے نااہل قرار پائے جبکہ دوسرے رکن فیصل نیازی کا سپیکر پنجاب اسمبلی نے استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔ فیصل نیازی نے مئی کے اوائل  میں اس وقت استعفیٰ دیا تھا جب وہ (ن) لیگ کے منحرف گروپ میں شامل تھے ،
 پنجاب اسمبلی سے وزیراعلیٰ منتخب کروانے کے لئے تحریک انصاف کو آج ہر صورت میں 14نشستیں اور (ن) لیگ کو 13 جیتنا ہوں گی۔ عمران خان کا دعویٰ ساری نشستیں جیت لینے کا ہے اور (ن) لیگ 14سے 16 نشستیں جیتنے کے لئے پرامید ہے۔
 فی الوقت یہ دونوں کی امیدیں ہیں رائے دہندگان آج کیا فیصلہ کرتے ہیں شام تک صورتحال واضح ہوجائے گی۔
 انتخابی مہم کے دوران آگ سے کھیلتے رہنے والے قائدین کے لئے آج کے ضمنی انتخابات زندگی اور موت کا معاملہ ہیں آج کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے کچھ حلقوں میں فرقہ واریت کو ہوا بھی دی گئی یہ کام دونوں بڑی جماعتوں نے کیا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اچھا نہیں کیا۔ 
بعض نشستوں پر مقابلہ کانٹے دار ہے جیسا کہ ملتان، بھکر، شیخوپورہ، لودھراں اور خود لاہور میں۔ سیاسی رپورٹنگ کرنے والے کچھ صحافی دوست کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی 8سے 9اور (ن) لیگ 12نشستیں تک لے جائے گی۔ (ن) لیگ کے بعض رہنما 14سے 16 نشستوں کے حصول کا دعویٰ کررہے ہیں۔
 فقیر راحموں کہتے ہیں مقابلہ ففٹی ففٹی پر رہے گا یعنی دونوں جماعتیں 10، 10 نشستیں لے پائیں گی ایک آدھ سیٹ کسی اپ سیٹ کی صورت میں دونوں میں سے کسی ایک کی بھی بڑھ سکتی ہے۔ 
ضمنی الیکشن کے اس پورے منظرنامہ میں فقیر راحموں کی طرح ہمیں بھی ملتان شہر کی نشست سے دلچسپی ہے جہاں ہمارے پیران پیر مخدوم شاہ محمود قریشی کے فرزند میدان میں ہیں اور دوسری طرف (ن) لیگ کے ٹکٹ پر وہ نوجوان جس نے 2018ء کے عام انتخابات میں مخدوم صاحب کو شکست دی تھی۔
 دیکھا جائے تو اس حلقہ میں بظاہر (ن)  لیگ اور تحریک  انصاف کے امیدوار ہیں لیکن یہ گیلانی قریشی دنگل بن گیا ہے۔