37

ووٹرز کی ذمے داریاں

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ 24جولائی کو ہوگی۔کراچی کے5ہزارسے زائد پولنگ اسٹیشنزمیں انتخابی عملے کی تعداد 62ہزار 174ہوگی ،جہاں ووٹرز کی مجموعی تعداد 84لاکھ5ہزار475سے زائد ہے۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ 984وارڈ ز پر امید واروں کی مجموعی تعداد 9ہزار 150ہے جب کہ7اضلاع اور25ٹاؤنز کی 246 یونین کمیٹیوں پر بلدیاتی انتخابات ہوںگے ۔ گزشتہ بلدیاتی منتخب نمائندؤں کی چار سالہ مدت معیاد اگست 2019ء کو مکمل ہوگئی تھی، جس کے بعد ایک سو بیس دنوں کے اندر نئے بلدیاتی انتخابات ہونے تھے لیکن مختلف انتظامی اور سیاسی معاملات کی وجہ سے یہ انتخابات بروقت نہیں ہوسکے اس طرح گزشتہ تین سالوں سے سندھ کا بلدیاتی نظام سرکاری افسران چلاتے آرہے ہیں جس وجہ سے شہر کراچی کے بلدیاتی مسائل گمبھیر تر ہوئے ہیں خاص طور پر صحت و صفائی اور نکاسی آب کے مسائل کی وجہ سے کراچی کچرا کنڈی اور تالاب کانمونہ رہا ہے اور بارشوں کے دنوں میں پورا کراچی دریا میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔

ایک طرح سے سیاسی طور پر کراچی لاوارث رہا ہے ۔اب جب کہ دیر آید درست آید کے مصداق کراچی میں بھی دیر سے بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں ایسے میں ووٹرز کی ذمے داریوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔

انتخابات قومی ہو، صوبائی ہویاکہ بلدیاتی ہرایک صورت میں ووٹ کی اہمیت و افادیت مسلم ہے ۔ووٹ کے درست استعمال سے ملک و قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے جیسا کہ غلط استعمال اور جذباتی فیصلے سے بگڑ بھی سکتی ہے لہٰذا ووٹرز کو اپنی قیمتی رائے دینے سے قبل تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے تاکہ ملک امن و آشتی، ترقی و خوشحالی کی نظیر ہو۔ووٹ صرف بلیٹ پیپرز پر مہر ثبت کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک قسم کی شہادت ہے کہ جس امید وار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا جارہا ہے وہ ملک و قوم کا سچا وفادار ومخلص ہے اور جس عہدے ،رتبے و منصب کے لیے امید وار ہے، اس کی وہ اہلیت رکھتا ہے۔

 

یہ بات ذہن نشین رہے کہ گواہی دینے والا بروز قیامت جوابدہ ہے کہ جو گواہی دی گئی تھی وہ سچی تھی یا جھوٹی ؟ جب ایسا مرحلہ درپیش آئے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوکہ ووٹ کسے دیا جائے ؟ مد مقابل امید وار حقیقی معیار کے مطابق نہیں ہیں تو ایسی صورت حال میں موازنے کا عمل اختیار کیا جائے ۔جو سب سے زیادہ مناسب امید وار ہو اسے ووٹ کاسٹ کیا جائے تاکہ کم سے کم نقصان کا اندیشہ رہے ۔ووٹ قیمتی بلکہ امانت ہے جو امید وار کا حق ہے ۔اسے ہر حال میں استعمال کرنا چاہیے ۔آپ کا ایک ووٹ کاسٹ کرنے یا نہ کرنے سے اچھے اور برے نمایندے کا انتخاب ہوسکتا ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس امید وار کو ووٹ دے کر منتخب کیا جاتا ہے اگر وہ اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدوں سے منحرف ہوجائے ،ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے بر عکس کام کرنے لگے ۔غلط کاموں میں مصروف ہوجائے یا غلط فیصلے اور ظلم و ستم کرنے لگے تو اس قومی جرم میں ووٹرز کا بھی حصہ ہوتا ہے اس لیے ووٹ استعمال کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنی چاہیے اور ذاتی پسند و ناپسند اور شخصیت پرستی سے بالا تر ہوکر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ووٹرز کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہیے ۔ہر پاکستانی شہری مرد ہو یا عورت جس کی عمر 18سال یا اس سے زائد ہو ،آزادانہ طور پر اپنا ووٹ استعمال کرنے کا آئینی و قانونی حق محفوظ رکھتا ہے ۔

بدقسمتی سے آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، حالات سازگارنہیں ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب بھی نہیں کہ معاشرہ اچھے لوگوں سے خالی ہے ۔وطن عزیز میں اچھے اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو دل وجان سے اپنے اپنے شعبوں میں ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں اور وہ عوامی نمایندگی کے ذریعے اپنی خدمات کو وسیع کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ محب وطن ،نیک، صالح ،ایماندار ،بے لوث ،مخلص اور خوف خدا رکھنے والے لوگ ہی اس اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں ،یہی چراغ جل اٹھیں تو روشنی ہوگی اور یہ چراغ معاشرے کی مثبت سوچ و فکر اور درست فیصلے سے روشن ہوسکتے ہیں ۔

ایک مرتبہ پھر کراچی کے عوام کو اپنے بلدیاتی نمائندے چنے کا موقع مل رہا ہے امید ہے کہ وہ اپنے ذاتی پسند و ناپسند کے خول سے نکل کر ایسے امید واروں کو منتخب کریں گے جو بعد میں ان کے لیے سردرد نہ بنیں یعنی اپنے وعدوں سے منحرف نہ ہوں حقیقی معنوں میں شہر کراچی کے بلدیاتی مسائل کو حل کرنے کی جستجو کریں اور شہریوں کے لیے سکھ کے سانس کا باعث بنیں۔ ذراغور کریں ! کس نے کب شہر کراچی کے مسائل کم کیے اور کس نے کب ان میں اضافہ کیا؟

یہ نہ ہو کہ ماضی کی طرح اپنے بلدیاتی نمایندے منتخب کرنے کے بعد پچھتاوا ہو ۔ کراچی کے نام پر نام نہاد سیاست بہت ہوگیا یہ نام نہاد سیاست ہی کا نتیجہ ہے کہ آج کراچی منجودڑوبنا ہوا ہے ،ذراسی بارش میں کراچی پانی میں ڈوب جاتا ہے ، گٹر ابلنے لگتے ہیں ، روڈ ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ان میں گڑھے پڑ جاتے ہیں ، راہ گیر اور بچے کھلے ہوئے گٹر میں گر جاتے ہیںجس سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے ، صفائی نہ ہونے سے پورا کراچی کچرا کنڈی کا نمونہ بن جاتا ہے ان سے تعفن اٹھنے لگتا ہے جس سے بیماریاں پھیلتی رہی ہیں، مچھر مکھیوں کی یلغار ہوتا ہے جس سے ملیریا کی بیماری عام ہوجاتی ہے۔

شہر کے چھوٹے بڑے برساتی نالے گند سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ان کے اوپر تجاوزات تعمیر ہوتے رہے ہیں ، پینے کے پانی کی تلاش میں شہری سرگرداں نظر آتے ہیں اور کہیں علاقوں میں گٹر ملا پانی سپلائی ہوتا ہے ،فٹ پاتھ شہر کراچی سے غائب کردیے گئے ہیں ان پر قبضے کیے جاچکے ہیں ،پیدل چلنے والوں کا حق غضب کیا جاچکا ہے ،پیدل چلنے والے لوگ فٹ پاتھ نہ ہونے سے سڑکوں کے کناروں پر چلنے پر مجبور ہیں، جس سے حادثات معمول بن چکے ہیں۔

پورا شہر ٹھیلے اور پتھارے کا جنگل بن چکا ہے ،جو درخت سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے تھے ان کو کاٹا گیا ہے جو سبزہ زار تھے وہ ویران ہوچکے ہیں ، اسٹریٹ لائٹ کی کمی شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے ،کھیل کے میدا ن کم ہونے سے نوجوان اور بچے سڑکوں کے کنارے کھیلنے پر مجبور ہیں جس سے حادثات کا خدشہ رہتا ہے ،پورا شہر بڑے بڑے بے ہنگم بورڈ اشتہارات کا جنگل بنا ہوا ہے جو بارشوں کے موسم میں گرتے رہے ہیں اور حادثات کا سبب بنتے رہے ہیں ۔

ان جیسے دیگر بہت سے بلدیاتی مسائل ہیں جن سے شہری روزانہ سامنا کرتے ہیں ۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران بلدیاتی سرکاری افسران کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی اور کرپشن کی وجہ سے شہر کراچی گندہ ترین شہر بن چکا ہے ۔ اس لیے ان تمام عوامی مسائل کے حل کے لیے عوام اپنا درست فیصلہ کریں اور مخلص لوگوں کا انتخاب کریں جو ان کے عوامی مسائل کو حل کرنے کی سعی کریںاور شہر کراچی کو ایک مرتبہ پھر عروس البلاد بنائیں ۔