116

مضبوط جھوٹ بمقابلہ کمزور سچ

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ سابق حکومت کے خلاف کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی تھی اور قومی سلامتی کے اعلیٰ سطح کے ادارے کے اجلاسوں میں کسی ایسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں دیا جاسکا تھا۔

اس اہم میٹنگ میں ملکی ایجنسیوں نے تفصیلی طور پر اپنی رپورٹس پیش کی تھیں۔ پہلی میٹنگ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں ہوئی تھی جس میں بتا دیا گیا تھا کہ ہماری ایجنسیوں کو کسی سازش کے ثبوت یا شواہد نہیں ملے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیان کو بھی جھوٹا قرار دیا گیا۔

 

عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پہلے امریکی سازش قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میں نے اس سازش کا بتا دیا تھا مگر سازش ناکام بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ عمران خان نے بعد میں امریکی سازش میں بھارت اور اسرائیل کو بھی ملوث کرلیا تھا۔ عمران خان کے سازش کے جھوٹے بیانیے کو سوائے پی ٹی آئی کے تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا تھا۔

 

سابق وزیر اعظم یہ بھی کہتے آ رہے ہیں کہ میری حکومت میں روس سے 30 فیصد سستا پٹرول خریدنے کا معاہدہ ہو گیا تھا، موجودہ حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کسی معاہدے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ عمران خان پھر بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ روس سے سستا تیل خریدنے کا معاہدہ ہوا تھا۔

 

اصولی طور پر تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب حقائق سلامتی کمیٹی میں کلیئر کردیے گئے تھے،لہٰذا حقائق کو مسخ کرتے ہوئے کسی کو جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے مگر عمران خان بضد ہیں کہ امریکا نے ’’ سازش‘‘ کے تحت مجھے ہٹا کر ملک پر ’’چوروں‘‘ کا ٹولہ مسلط کیا ہے جس سے ملک میں جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ عمران خان کے متعلق پی پی رہنما اور وفاقی وزیر شیری رحمن کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سیاست کی ابتدا جھوٹ سے ہوتی ہے اور یوٹرن پر ختم ہوتی ہے۔

ملک کا سیاسی ماحول کچھ یوں بن گیا ہے کہ حکومت اور وزراء عمران خان پر اور عمران خان اور ان کے پارٹی رہنما حکومت پر جھوٹ بولنے کے الزامات لگا رہے ہیں اور عوام دونوں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کون جھوٹ اور کون سچ بول رہا ہے۔ عوام کے نزدیک اب جھوٹ سیاست کا لازمی جز بن چکا ہے جس کے بغیر سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔

پنجاب کے باریش گورنر اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما بلیغ الرحمن اس بات سے متفق نہیں اور کہتے ہیں کہ سیاست جھوٹ کے بغیر بھی کی جاسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کیا جائے، عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے نہیں کرنے چاہئیں، انھیں حقائق بتا کر سچ بول دینا چاہیے ،اس میں نقصان تو ہے مگر ساکھ قائم رہتی ہے۔ جھوٹ ہر حکومت میں بولا گیا اور عوام کو سنہرے خواب دکھائے گئے، جھوٹے اعلانات اور وعدے کیے جاتے رہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ عوام کو عمران خان  سے سچ بولنے کی زیادہ امید تھی مگر سیاست میں آ کر انھوں نے جتنے دعوے اور اعلانات کیے تھے، وہ کسی اور سیاسی رہنما نے نہیں کیے۔ عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب پر 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا تھا جس پر نجم سیٹھی نے ان پر مقدمہ کیا تو عمران خان نے کہہ دیا کہ وہ ان کا سیاسی بیان تھا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1970کے انتخابات میں عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا اعلان کیا تھا تو 2018 میں عمران خان نے لوگوں کو 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کے اعلان کے علاوہ کرپشن ختم کرنے کے دعوے کیے تھے اور اب نئی حکومت ،سابقہ پی ٹی آئی حکومت میں عمران خان پر فرح خان کے ذریعے کرپشن اور پچاس ارب کی منی لانڈرنگ فراڈ کا الزام لگا رہی ہے جس کی تحقیقات کے لیے کابینہ کی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب پر بھی منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ لاہور میں اسپیشل سینٹرل عدالت نے قرار دیا ہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آصف زرداری کی بریت کے خلاف مقدمے میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ انھوں نے چیئرمین نیب کو رائے دی تھی کہ اپیلیں واپس لے لی جائیں مگر چیئرمین نیب نے ایسا نہیں ہونے دیا تھا اور ہمارے پاس ریکارڈ موجود نہیں تھا۔

سچ اور جھوٹے کے فیصلے کا اختیار عدالتوں کا ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے مقدمات میں کسی کو بھی ملزم بنا سکتے ہیں مگر عدالتوں میں جرم ثابت ہونے پر ہی وہ مجرم قرار پا سکتا ہے مگر اب ملک میں بعض سیاسی رہنماؤں نے یہ عدالتی اختیار بھی خود استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ عمران خان نے ایک اہم ادارے الیکشن کمیشن کے سربراہ پر الزام لگایا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مریم نواز اور حمزہ شہباز سے احکامات لیتا ہے۔

ایک اہم آئینی ادارے کے سربراہ پر وہ پہلے بھی الزامات لگاتے رہے ہیں،جب کہ ان کے دو وزرا معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر پر لگنے والے سنگین الزامات پر سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا چاہیے تھا کیونکہ سپریم کورٹ عمران خان کے ایف آئی اے والے بیان پر نوٹس لے چکی ہے تو چیف الیکشن کمشنر پر لگائے جانے والے الزامات تو بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ سیاستدانوں، حکومتی اداروں اور حکومتی عہدیداروں کی بھی تو ساکھ ہوتی ہے جسے متاثر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے مگر ملک میں اب تو فوج اور عدلیہ کی ساکھ بھی محفوظ نہیں رہی ہے اور سوشل میڈیا ان کے خلاف الزامات سے بھرا پڑا ہے جس پر آئی ایس پی آر تشویش کا اظہار کر چکا ہے جب کہ موجودہ حکومت کو امپورٹڈ قرار دے کر اس پر بھی سوالات اٹھائے جاچکے ہیں اور ایسے سچے یا جھوٹے الزامات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔

جھوٹ سے تو کوئی پارٹی مبرا نہیں اور سیاستدانوں نے جھوٹ کو اپنی سیاسی مجبوری بنا رکھا ہے۔ حکومت اپوزیشن ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات عائد کرتے ہی ہیں مگر اب دو بڑے ملکوںامریکا اور روس کے متعلق بھی ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جا رہا ہے جس سے دونوں ملکوں میں پاکستان کا کیا تاثر جا رہا ہے، اس کی فکر کسی کو نہیں مگر پاکستان کی ساکھ ضرور متاثر ہو رہی ہے۔ موجودہ حالات میں مضبوط جھوٹوں کے آگے سچ کمزور نظر آ رہا ہے۔

ملکی سیاست میں جھوٹ سے تو عوام بھی واقف ہیں کیونکہ انھیں کسی بھی سیاستدان سے سچ کی توقع نہیں، خواہ وہ مذہبی، سیاسی رہنما ہی کیوں نہ ہو۔ ملک میں تو جھوٹ بولا ہی جاتا رہا ہے مگر اب دو بڑے ممالک کی وضاحت کے باوجود انھیں اپنے جھوٹوں میں ملوث کیا جا رہا ہے جس سے عالمی سطح پر بھی ہمیں نقصان ہوگا۔