92

حرمتِ رسولؐ

بار بار ان کالموں میں اس امر کا ذکر کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت کے ہندو انتہا پسند کچھ زیادہ ہی بے لگام ہو چکے ہیں انہوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تو تنگ کیا ہی ہوا تھا اب ان کی غیرت ایمانی کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے بی جے پی کے دو بد بخت کارندوں کی طرف سے کی جانے والی ہرزہ سرائی کے خلاف بھارت بھر کے مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں بھارت میں ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی زبوں حالی اور دیگر سنگین مسائل ہیں تو دوسری طرف ان دو بد بختوں کی نحوست ہے۔ دونوں ہی کا قابو سے باہر ہونا بھارت کی بچی کھچی ساکھ کیلئے نقصان دہ ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کی پریشانی اور مسلسل پریشانی ہے تو دوسری طرف متعدد ملکوں کا احتجاج ہے۔ شاید مودی سرکار کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلم ممالک آگ بگولہ ہوجائینگے۔
 جب پہلی بار اس معاملے میں خوابیدہ عرب ممالک کا شدید ردعمل سامنے آنے لگا تو مودی سرکار فکرمند ہوئی، اس نے متعلقہ ملکوں میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کیا اور انہیں، ان ملکوں کی حکومتوں کو یہ سمجھانے پر مامور کیا کہ بھارت ایک تکثیری سماج ہے جہاں ہزاروں سال سے الگ الگ مذاہب کے ماننے والے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کے سیکولر نظریات اور سیکولر آئین کا بھی حوالہ دیا گیا مگر ردعمل ظاہر کرنے والے ملکوں کی تعداد کے بڑھتی چلی گئی جس سے مودی سرکار کے اوسان خطا ہونے لگے ہیں اس معاملے میں بھارت کی جو رسوائی ہوئی ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ خود بعض معتدل مزاج بھارتی سیاستدان تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کو اس قسم کے بحران کا کبھی سامنا نہیں رہا۔
 فکرمند ہونے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کو اب بھی امید ہے کہ سفارتی سطح پر اس بحران سے نمٹ لیا جائیگا۔ کیونکہ دونوں بد بختوں کو معطل کرنے پارٹی سے نکالنے کے علاوہ کوئی اور قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔اسی طرح بی جے پی یا حکومت کے کسی اہم عہدیدار نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔خود بھارتی اخبارات کے مطابق اتنے بڑے بحران پر، جو بڑے نقصان کا باعث بنا اور جس کی وجہ سے ہماری عالمی ساکھ مجروح ہوئی، حکومت کے اہم وزرا ء اور بی جے پی کے اہم لیڈروں کی خاموشی نئی نہ ہونے کے باوجود حیرت انگیز ہے۔بھارتی پریس کے مطابق یہ وقت تھا کہ عوام کو اعتماد دلاتے ہوئے کہا جاتا کہ پارٹی کے دونوں بد بختوں کے خلاف ابتدائی کاروائی کی گئی ہے، مزید کاروائی ہوگی، متنازعہ بیان سے حکومت اور پارٹی کا تعلق نہیں ہے اور ملک کی مذہبی اقلیتوں کو مطمئن رہنا چاہئے کہ حکومت ان کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں ہونے دے گی۔ یہ بیان ضروری تھا مگر ندارد ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت کو معاملے کی حساسیت کا کوئی احساس نہیں ہے جو انتہائی شرمناک امر ہے جیساکہ پہلے بتایا گیا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر حرمت رسول ؐپر جان تک قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں اور اس بار تو عرب ممالک نے جو ردعمل ظاہرکیا ہے۔
وہ نہ صرف حیران کن بلکہ خوش آئند تبدیلی قرار دی جا رہی ہے کیونکہ یہ ممالک بھارت کی معیشت میں بنیادی کردار کے حامل ہیں گلف کوآپریشن کونسل سے وابستہ ملکوں میں 80 لاکھ بھارتی باشندے برسرکار ہیں جن میں صرف سعودی میں 30  لاکھ ہیں۔ ان کے ذریعہ بھارت بھیجی جانے والی 35 ارب ڈالر کی رقم اتنی بڑی ہے کہ بھارت، تیل کی درآمد کے سالانہ بل کا ایک تہائی اسی رقم سے ادا کرسکتاہے۔ اس سے لاکھوں خاندانوں کی کفالت ہوتی ہے۔ اگر ایک خاندان کے چار افراد جوڑے جائیں تو 40 ملین یعنی 4 کروڑ افراد کا گزارا اسی رقم پر ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارت جن ملکوں سے تیل برآمد کرتا ہے ان میں خلیجی ممالک سرفہرست ہیں۔ بھارت کی ضرورت کے ایندھن کا 40 فیصد انہی ملکوں سے حاصل ہوتا ہے جن میں صرف سعودی عرب کا حصہ 18 فیصد ہے۔ اسی طرح گیس کی بھارتی ضرورت کا 40  فیصد صرف قطر سے لیا جاتا ہے۔ ان ممالک کے ساتھ باہمی تجارت جو 2000-2001 میں 33 ارب ڈالر تھی، 2018-19 میں 121 بلین ڈالر کے برابر ہوگئی۔
 اس میں کوئی شک نہیں بعض شعبے ایسے ہیں جہاں حکومت کا عمل دخل زیادہ نہیں ہوتا مثلا ریکروٹمنٹ۔ بھرتیاں نجی کمپنیاں کرتی ہیں۔اگر ان کمپنیوں نے اہانت رسولؐ کی وجہ سے غیر مسلموں کی بھرتی روک دی تو یہ صورتحال بھارت کیلئے پریشان کن ہوگی اور اسی لیے پہلی بار اس معاملے میں بھارت کی انتہا پسند حکمران جماعت کو فکر دامن گیر ہو چکی ہے۔بھارت کے سابق سفارتکاروں کے مطابق مودی حکومت کو بی جے پی کی صفوں میں اور ان صفوں کے باہر بھی جو عناصرنفرت کی زبان بولتے ہیں انہیں بہر قیمت روکنا پڑے گا کہ ان کی زبان چلے گی تو بھارتی سفارت چل پائے گی نہ ہی دنیا میں بھارت کی عزت ہوگی بھارت کے سابق سفارتکار تو حالات کا ادراک کر رہے ہیں مگر ہندو انتہا پسند اپنی روش سے باز آنے کیلئے تیار نہیں۔کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت میں آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت ایسی حکومت قائم رہے کہ جہاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی زندگی ہندو اکثریت کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے۔ انتہا پسند ہندو سر عام جس طرح مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اکثر حالات میں انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان ہندو انتہاپسندوں کو پوری طرح حکومتی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سب کچھ وہ ایک منظم ایجنڈے کے تحت کررہے ہیں۔ 

آصف نثار غیاثی