66

متوازن بجٹ

پاکستان میں مقامی طور پر بنائی جانے والی موٹرگاڑیوں کیلئے درکار پرزہ جات و دیگر ضروریات حتی کہ بعدازاں فاضل پرزہ جات بھی درآمد کئے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کوئی ایک بھی ایسی گاڑی نہیں جو 100 فیصد ’میڈ اِن پاکستان‘ ہو۔ اگرچہ بیشتر کمپنیاں اِس بات کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن کہیں نہ کہیں اُنہیں بیرون ملک سے درآمدی خام مال پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں گاڑیوں کی قیمتیں درآمد شدہ گاڑیوں سے کم رکھنے کی کوشش میں معیار پر سمجھوتا کر لیا جاتا ہے۔ آئندہ مالی سال (2022-23ء) کے وفاقی بجٹ میں مقامی موٹرساز صنعت پر عائد محصولات میں اضافہ کیا گیا ہے‘ جس سے اِس صنعت کی مشکلات پہلے سے زیادہ بڑھ جائیں گی جو پہلے ہی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بحرانی دور سے گزر رہی ہے اور اِس صنعت سے وابستہ روزگار کا مستقبل بھی زیادہ محفوظ دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مزید اضافے کی اطلاعات متوسط طبقات کیلئے موٹرگاڑی رکھنے کو کسی ڈراؤنے خواب کی طرح مشکل بنا دے گی۔ 
وفاقی بجٹ سے مقامی گاڑیوں کے ”اسمبلرز“ خوش (مطمئن) نہیں جن کا کہنا ہے کہ ”حکومت نے ’سولہ سو سی سی‘ انجن طاقت سے زیادہ کی موٹر گاڑیوں پر ”ایڈوانس ٹیکس“ بڑھانے کا فیصلہ کرتے وقت نہ تو متعلقہ صنعتکاروں سے مشورہ کیا اور نہ ہی اِس شعبے کو بچانے کیلئے اصلاحاتی تجاویز طلب کی گئیں جو روایت رہی ہے۔“ اِس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مقامی طور پر گاڑیاں تیار کرنے والی صنعت کو درپیش مشکلات کے بارے میں پہلے ہی حکومت کو مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن ”ایڈوانس ٹیکس“ بڑھانے جیسافیصلہ کیا گیا اور اس کا نتیجہ مذکورہ صنعت کی مشکلات میں اضافے کی صورت یہ نکلے گا کہ پاکستان میں مقامی طور پر تیار (اسمبل) ہونے والی موٹرگاڑیوں (آٹوز) کی فروخت (مانگ) میں کمی آئے گی۔“ ذہن نشین رہے کہ وفاقی بجٹ میں 1600سی سی سے زائد کی موٹر گاڑیوں کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس دوگنا جبکہ پچاس لاکھ روپے یا اس سے زائد لاگت والی الیکٹرک گاڑیوں پر تین فیصد ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔ پچاس لاکھ (پانچ ملین) روپے سے زائد مالیت کی موٹر گاڑیوں پر ’دو فیصد‘ کیپیٹل ویلیو ٹیکس (سی وی ٹی) بھی عائد ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کی بچت کیلئے حکومت نے پہلے ہی موٹر گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور دوسری طرف مقامی گاڑیوں پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔
 مجموعی طور پر وفاقی بجٹ ’آٹو اسمبلرز‘ کیلئے منفی اشارہ ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ عیش و آرام سے متعلق اشیا کی درآمدات کم ہوں اور اِن کی طلب میں بھی کمی آئے۔ اِس مقصد کیلئے کئے گئے مختلف اقدامات کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور ایندھن کی مد میں بچت متوقع ہے کیونکہ ’ایک ہزار اور اِس سے زیادہ سی سی‘ طاقت رکھنے والی گاڑیوں کی مانگ معمولی متاثر ہوگی اِس سلسلے میں ایک مثال سے بات واضح کی جا سکتی ہے کہ ’ود ہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی)‘ کو صرف گاڑیوں کی کسی ایک مخصوص کلاس (سولہ سو سی سی) پر نہیں بلکہ تمام گاڑیوں پر یکساں لاگو کرتے ہوئے بڑھایا جانا چاہئے تھا۔ سولہ سو سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ڈبلیو ایچ ٹی میں مجوزہ اضافے کے ساتھ‘ کچھ اسمبلرز کو دوسروں پر سبقت مل جائے گی اور سولہ سو سی سی یا اس سے زائد گاڑی سازوں کو نقصان ہوگا۔ ابھی بجٹ صرف پیش ہوا ہے اُور اِس کی تجاویز آئندہ چند ہفتے قومی اسمبلی میں زیربحث رہیں گی۔ اُمید ہے کہ وفاقی فیصلہ ساز بغیر کسی استثنیٰ کے ڈبلیو ایچ ٹی میں برابری کے ساتھ اضافہ کریں گے جبکہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور ٹیکس دہندگان (ٹیکس نیٹ) میں اضافے کیلئے بھی خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں گے۔

  آل یاسین