467

’’میثاقِ معیشت‘‘ وقت کی اہم ضرورت

پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ دورِ جمہوریت میں جب بھی کوئی سیاسی جماعت الیکشن جیت کر برسراقتدار آئی تو اپوزیشن نے برسراقتدار جماعت پر بدعنوانی، اقربا پروری، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات لگا کر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں حکومت عدم استحکام کا شکار ہوئی اور ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر تیسری طاقت اقتدار پر قابض ہوگئی۔ 

یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک 70برسوں کے دوران نصف سے زائد عرصہ ملک میں آمریت رہی اور کسی بھی جمہوری حکومت نے اوسطاً دو سال سے زیادہ حکومت نہیں کی۔ 

نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو دو مرتبہ اقتدار ملا مگر دونوں جماعتوں کو باہمی رسہ کشی کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایسی صورتحال میں دونوں جماعتوں میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ وہ باہمی اختلافات ختم کرکے تیسری قوت کو اقتدار میں آنے سے روکیں۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے 14مئی 2006کو لندن میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے اور مفاہمتی سیاست کا آغاز کیا۔ 

بعد ازاں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی اور پہلی بار اپنی 5سالہ مدت پوری کرکے اقتدار مسلم لیگ (ن) کے حوالے کیا۔ اسی طرح جب نواز شریف حکومت کو پی ٹی آئی کے دھرنوں سے خطرات لاحق ہوئے تو پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا بھرپور ساتھ دیا۔ 

پیپلزپارٹی چاہتی تو پی ٹی آئی کیساتھ ملکر حکومتی بساط لپیٹ سکتی تھی مگر پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت کے باعث ایسا کرنے سے گریز کیا اور پارلیمنٹ کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی 5سالہ مدت پوری کی۔

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کیلئے اس ملک کی معاشی پالیسیوں کا تسلسل اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ہر نئی حکومت نے گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے معیشت کیلئے تباہ کن قرار دیا۔ 

اس طرح پچھلی حکومت کے شروع کئے گئے قومی اہمیت کے پروجیکٹس کو یا تو یکسر طور پر بند کردیا گیا یا پھر منصوبے پر کام Slowdownکردیا گیا تاکہ اسکا کریڈٹ گزشتہ حکومت کو نہ جا سکے۔ 

پی ٹی آئی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد آج ایک بار پھر پچھلی حکومتوں پر بدعنوانی، اقربا پروری، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات اور انتقامی کارروائیوں کا روایتی سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور برسراقتدار جماعت نے گزشتہ حکومت کی قومی اداروں کی نجکاری، رضا کارانہ ایمنسٹی اسکیم، سرکولر ڈیٹ اور قرضوں جیسے ایشوز پر سیاست اور پوائنٹ اسکورنگ کرکے مخالف برائے مخالفت کی پالیسی اپنائی۔ 

نتیجتاً معیشت تنازعات کا شکار ہوتی گئی جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا اور ملک میں عدم استحکام کے باعث وہ معیشت جو 5.8جی ڈی پی شرح تک جاپہنچی تھی، ڈیڑھ سال میں آدھی سے بھی کم سطح پر آچکی ہے اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا۔

اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چین، جاپان، اٹلی، برطانیہ اور دیگر ممالک کی ترقیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ ان ممالک میں حکومتوں کے آنے جانے سے اُن کی معاشی پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے اور یہی ان ممالک کی ترقیوں کا راز ہے۔ 

کچھ سال قبل جب میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) کے نائب صدر کے عہدے پر فائز تھا تو میں نے چین کے سفیر کو فیڈریشن میں ملاقات کیلئے مدعو کیا۔ دورانِ گفتگو میں نے چینی سفیر سے سوال پوچھا کہ ’’چین کی ترقی کا راز کیا ہے؟‘‘ جس پر چینی سفیر نے جواب دیا کہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل چین کی ترقی کا اہم راز ہے۔ 

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ماضی میں معاشی پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کے باعث آج پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی طرح ترقی نہ کر سکا تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ آخرکار حکومت نے یہ محسوس کیا ہے کہ اپوزیشن سے محاذ آرائی اور الزام تراشی کی سیاست ملکی مفاد اور معیشت کیلئے تباہ کن ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ آرمی ایکٹ میں توسیع اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت دیکھنے میں آئی اور حساس نوعیت کے یہ دونوں معاملات بڑی خوش اسلوبی سے انجام پائے۔

سیاستدانوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے جس کا نقصان کسی شخصیت کو نہیں بلکہ ملک کو پہنچتا ہے۔ 

ملکی معیشت کی موجودہ زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے اتفاق رائے سے ایک پیج پر متفق ہوں اور ماضی میں جس طرح سیاسی جماعتوں نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر اتفاق کیا تھا۔

اسی طرح ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور ملکی ترقی کیلئے ’’میثاق معیشت‘‘ پر اتفاق کیا جائے جسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو تاکہ جب کوئی جماعت برسراقتدار آئے تو گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بلاجواز تبدیل نہ کرسکے اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔