396

محفوظ فیاضی

دنیا بھر میں عوام اور اداروں کی جانب سے عطیات دینے کی روایت بہت قدیم ہے۔ قرون وسطیٰ کے زمانے سے لوگ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ خیرات کرتے تھے۔ پہلے یورپ میں لوگ ذاتی طور پر غریبوں کو خیرات و عطیات دیتے تھے، پھر عیسائی پادریوں نے عطیات و خیرات کو مذہبی فریضہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔

پادری عطیات کے عوض لوگوں کو جنت میں جانے کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتے تھے، یوں چرچ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ان عطیات کی بناء پر پہلے کیتھولک اور پھر پروٹیسٹنٹ چرچ بڑی بڑی جائیدادوں کا مالک بن گیا۔ جب یورپ میں نشاط ثانیہ کی تحریک شروع ہوئی اور یورپی معاشرے صنعتی معاشروں میں تبدیل ہوئے۔

برطانیہ میں پارلیمنٹ کی بادشاہ اور چرچ کے درمیان جنگ تیز ہوئی اور اس جنگ میں بادشاہ اور چرچ کو شکست ہوئی اور پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہوئی تو عطیات کسی فرد یا چرچ کو دینے کے تصور میں تبدیلی آئی۔ عوام میں رجعت پسند سوچ کے بجائے روشن خیالی نے تقویت پائی، یوں اقتصادی ماہرین نے کسی فرد کو عطیہ دینے کے رجحان کو غربت کے خاتمے کے عمل میں رکاوٹ قرار دیا۔ ان ماہرین نے یہ دلائل دیے کہ اگرکسی عطیہ سے پیداواری عمل میں تیزی نہ آئے اور خام قومی آمدنی کی شرح نہ بڑھے تو پھرغربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔

برطانیہ میں صنعتی انقلاب کی بناء پر کسانوں نے اپنے آبائی پیشے چھوڑ دیے۔ وہ شہروں میں کارخانوں کے مزدور بن گئے۔ سرمایہ داروں کے پاس مزدوروں کی محنت کے عوض اپنی دولت میں اضافہ کے علاوہ کوئی اور تصور نہ تھا ، یوں مزدوروں کے استحصال کے بد ترین دورکا آغاز ہوا۔ سرمایہ دار مزدوروں کو صرف اتنی اجرت دیتے تھے کہ و ہ زندہ  اورکام کے قابل رہیں۔

18ویں صدی میں سرمایہ داروں کے استحصالی رویے کے خلاف یورپ کے مزدوروں میں مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں۔ یہ تحریکیں یورپ کے ساتھ امریکا تک میں پھیل گئیں۔ مزدوروں نے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ہڑتالیں تک کیں۔ سرمایہ داروں اور سرمایہ دارانہ ریاستوں نے مزدوروں کی مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت استعمال کی۔ معروف فلسفی جان ایچ پیٹرسن John H. Peterson نے مزدوروں میں پیدا ہونے والی بے چینی کو محسوس کیا اور یہ اندازہ لگایا کہ مزدوروں میں بے چینی کی بناء پر ان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔

جان پیٹرسن نے مزدوروں کے حالات کار کے لیے انڈسٹریل ویلفیئر موومنٹ Industrial Welfare Movement شروع کی۔ اس تحریک کا مقصد آجروں کو اپنے کارکنوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا تھا تاکہ مزدور یکسوئی کے ساتھ اپنے فرائض پر توجہ دیں اور ان کی پیداواری صلاحیت بڑھ جائے۔ اسی دوران سرمایہ داری کی سماجی ذمے داری Social Responsibility کا نظریہ خاصا مقبول ہوا۔ اس نظریہ کے تحت تاجر اور صنعت کاراسکول، اسپتال، چرچ اور کمیونٹی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنی چاہی۔ اس نظریہ کے مطابق اگر تاجر اور صنعتکار اسکول، اسپتال اور چرچ تعمیرکریں گے اورکمیونٹی کی بہبود کے منصوبوں پر رقم خرچ کریں گے تو مزدوروں کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔

مزدور طبقہ جب اپنے بچوں کی اسکولنگ، اسپتال میں علاج اور کمیونٹی کی بہبود کے منصوبوں سے مطمئن ہوگا تو اس کو وہ زیادہ محنت اور اہتمام سے فرائض انجام دے گا مگر یورپ میں ماہرین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سرمایہ دار کسی فرد کو عطیہ دے گا یا کارپوریٹ فیاضی Corporate Philantrophy کے ذریعہ لوگوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ مگر کارپوریٹ فیاضی سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی صلاحیتوں کو اس لکیر کے خاتمے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔  20 ویں صدی کے آغاز کے کچھ برسوں بعد Corporate Social Responsibility (CSR) کا تصور یورپ میں رائج ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیاضی کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی کی قدیم شکل ہے۔

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں CSR کا ایک نیا ایڈیشن سامنے آیا۔ اس ایڈیشن کو پیش کرنے والے ماہرین کی یہ رائے تھی کہ سرمایہ کار انسانی اور قدرتی وسائل Natural Resources کو استعمال کر کے منافع حاصل کرتا ہے۔ اس پورے عمل میں مزدور طبقہ اور ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ سماج میں برائی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

ان ماہرین کا کہنا تھا کہ مزدور طبقہ کے استحصال سے غربت کی شرح بڑھتی ہے۔ کچی آبادیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچے اور خواتین اپنے اور اپنے خاندان کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے لیبر فورس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بچوں اور خواتین کے مختلف نوعیت کے استحصال کی بھیانک شکلیں ظاہر ہوتی ہیں، یوں CSR کے اصول کے تحت سرمایہ کاروں ، تاجروں اور صنعتکاروں کی یہ اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی سماجی ذمے داریوں کا احساس کریں۔

یہ امیر لوگ کسی کو انفرادی طور پرکوئی عطیہ دینے کے بجائے CSR کے اصولوں کے تحت سماجی ذمے داریوں کو پورا کریں۔ اس عشرے میں مزدوروں کے حقوق کی پامالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صنعتی فضلے سے ماحولیات پر ہونے والے منفی اثرات کی بناء پر Corporate Pilanthropy پر کافی تنقید ہوئی۔ اقتصادی اور سماجی ماہرین نے CSR کے قانونی تصورکو اپنایا، مگر CSR کو قانونی شکل دینے کو قبول نہ کرنے کی بناء پر CSR پر علم درآمد شروع نہیں ہوسکا۔ 1990 میں CSRکو اپنانے کے سرٹیفکیشن پروگرام رائج ہوئے۔ پریشرگروپوں اور سماجی کارکنوں نے بڑے بڑے بزنس ہاؤس میں مزدوروں کے استحصال اور صارفین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے ماحول کو اخبارات میں خوب اچھالا گیا۔ یوں ایسی کمپنیوں کو اشیاء قبول نہ کرنے کی مہم بھرپور طور پر چلائی گئی۔

صارفین نے CSR کے ہتھیار کے ذریعہ ان کمپنیوں کی اشیاء کا بائیکاٹ کیا۔ CSRکے ماہرین کہتے ہیں کہ سماجی ذمے داریوں کے کاروبار سے کمپنیوں کی نہ صرف صارفین میں اچھی شہرت ہوئی ہے بلکہ تاجر برادری میں یہ کمپنیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ تاریخی طور پر اگر جدید دنیا میں عطیات دینے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کچھ حقائق یوں ظاہر ہوتے ہیں کہ 1950کی دہائی تک دنیا بھر میں فیاضی کا سلسلہ عروج پر تھا۔

صاحب ثروت افراد انفرادی طور پر جب کہ بڑی کاروباری کمپنیاں بھی عطیات دینے والوں میں شامل ہوتی تھیں۔ بڑی کمپنیاں بھی مختلف افراد کو عطیات دیتی تھیں اور مذہبی ، تعلیمی اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والی انجمنوں کو بھی امداد دی جاتی تھی ۔ مگر 1953 سے 1967تک ا مریکا اور یورپ میں عطیات دینے کی مبادیات کے بارے میں شعور بیدار ہوا۔ مخیر افراد اور بڑی کاروباری کمپنیوں نے اس بارے میں بحث و مباحثہ ہوا کہ کسی فرد یا کسی تنظیم کو امداد دی جائے اور کمیونٹی کی ترقی میں حصہ ڈالا جائے۔ 1968سے 1973 تک ماہرین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ صرف مختلف مسائل کے حل کے لیے عطیات کو استعمال کیا جائے۔ اسی زمانے میں تعلیم اور صحت کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو بہتر بنانے کے منصوبوں کو عطیات دیے جانے لگے۔ اس شعبہ میںتحقیق کرنے والے ماہرین نے 1974 سے اس نظریہ کو عام کیا۔

کارپوریٹ سیکٹر میں اسٹرکچرل تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور کارپوریٹ سیکٹر کی اخلاقی اور سماجی ذمے داریاں ہیں اور جوکاروباری ادارے اپنی سماجی ذمے داریوں کو پورا کریں گے، ان کے لیے ترقی کے امکانات زیادہ ہوںگے۔ 20 ویں صدی کے وسط سے پوری دنیا میں کارپوریٹ سماجی ذمے داریوں Corporate Social Responsibility کا نظریہ تقویت پا گیا۔ کئی یورپی ممالک، امریکا اور جاپان وغیرہ میں کارپوریٹ سیکٹر کی سماجی ذمے داری کے تناظر میں قانون سازی ہوئی۔

یہی وجہ ہے کہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک میں تعلیم ، صحت ، خاندانی منصوبہ بندی ، پولیو اور وہاں امراض کے خاتمے، جمہوری کلچرکو مضبوط کرنے، عوام کی سیاسی شرکت داری اور انسانی حقوق کے تحفظ اور اقلیتوں، خواتین اور تیسری جنگ کے مجبور اور بے کس لوگوں کی بہبود کے منصوبوں کے لیے عطیات دینے شروع کیے۔ ان ہی اداروں کی امداد کے نتیجے میں پاکستان میں انسانی زندگی کے معیارکو بلندکرنے کے بہت سے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔