سچی بات ہے آج کام چوری و حرام خوری کا ارادہ تھا لیکن بھلا ہو جان برادر مظہر برلاس کا جس نے میرا ایک نیم بھرا زخم پھر سے ہرا کر دیا۔ آپ نے کالم لکھا کہ پنجاب کو کیسی کیسی جہالتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سرفہرست تھا شہروں قصبوں کے نام تبدیل کرنا جس کی بہترین مثال میرے لائل پور کو فیصل آباد کرنا ہے۔ جن کے DNAمیں ٹمپرنگ ہو وہ ٹمپرنگ کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے اور ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ کرشن نگر کو اسلام پورہ کر دینے سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواب کو تعبیر نہیں ملتی، صرف ثانیہ نشتر پر گزر بسر کرنا پڑتی ہے۔
کچھ لوگ صرف بے استادے، بے ہدایتے اور بے تربیتے ہوتے ہیں یعنی نہ استاد، نہ ہدایت نہ تربیت۔ ان کے ساتھ تو بندہ روپیٹ کر گزارہ کر لیتا ہے لیکن جو بد استادے، بد ہدایتے اور بدتربیتے ہوتے ہیں، ان کو بھگتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں برے استاد، بری ہدایت اور بری تربیت نے فکری طور پر مسخ کر دیا ہوتا ہے۔
یہ رویہ دو نمبری کی ہی ایک قسم ہے مثلاً بیٹھے بٹھائے کچھ کئے کرائے بغیر نواب شاہ کو بے نظیر آباد بنا کر عوام کو بھی دھوکہ دیا اور تاریخ کے ساتھ بھی فراڈ کے مرتکب ہوئے۔ بے نظیر سے اتنی ہی عقیدت تھی تو نیک بختو! جان مارتے، پلاننگ کرتے، پیسہ خرچ کرتے اور اہل سندھ کو اک نئے خوبصورت شہر کا تحفہ پیش کرتے لیکن دو نمبریئے دراصل شارٹ کٹیے بھی ہوتے ہیں ورنہ انگریز کتنے نئے شہر دے گیا اور تمہاری اوقات؟
سندھ سے یاد آیا لاڑکانہ میں مصطفیٰ کمال کا شاندار دھواں دار جلسہ جس میں مصطفیٰ کمال نے کمال کا آئیڈیا فلوٹ کیا ہے کہ ’’ہم مہاجروں کے لئے سندھی بھائی انصار کا دوسرا روپ ہیں جنہوں نے ہمیں کھلے بازوئوں کے ساتھ گلے لگایا اور اب مہاجر و انصار ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سندھ کا مقدر بدل سکتے ہیں۔
سبحان اللّٰہ بہت بابرکت تصور ہے جس پر مجھے نسرین انجم بھٹی مرحومہ یاد آ گئی جس نے بھٹو کی پھانسی کے بعد نصرت بھٹو کے حوالہ سے اک لازوال پنجابی نظم لکھی جس کا یہ مصرع تب سے اب تک زہریلی پھانس کی طرح میری ہر سانس کے ساتھ پیوست ہے’’اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینے آئی ہوں‘‘سندھ کے مہاجروں اور انصار کو مصطفیٰ کمال کی یہ بات سمجھ میں آ گئی تو اس صوبہ کا زوال عروج میں تبدیل ہو جائے گا کیونکہ اس سے زیادہ بھلی اور بھائونی سوچ کا تصور تک ممکن نہیں۔
بات اسلام آباد کی ہوئی تو پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ یاد آیا جو ’’سوال‘‘ کا روپ دھار کر ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں بھی آ نکلا۔ میری منطق بہت ہی سادہ تھی کہ ’’اختیارات‘‘ اور تنخواہوں، اجرتوں، معاوضوں، مشاہروں کے درمیان احمقانہ قسم کا عدم توازن روز اول سے ہمارا مقدر ہے اور یہ کسی ’’سازش‘‘ سے کم نہیں کہ کم ظرف اشرافیہ نے شروع سے ہی سوچ رکھا ہے کہ اتنی غیرمنطقی تنخواہیں دو کہ ریاست کا ہر کل پرزہ، ہر فنکشنری زندہ رہنے کے لئے حرام کھانے پر مجبور ہو جائے تاکہ اشرافیہ بالائی ترین سطح پر ملکی وسائل کے پڑچھے اتار کر بیرون ملک بھاری رقوم منتقل کر سکے۔
مہنگی ترین جائیدادیں خرید سکے۔ اک عام فہم سادہ سی مثال ہے کسی بھی SHO کی جس کے ’’اختیارات‘‘ کا موازنہ اس کی معمولی ترین تنخواہ سے کریں تو کنپٹیاں جلنے لگتی ہیں۔
سچ یہ کہ یہاں تو جو بیچارہ ذرا ڈھنگ سے زندہ ہے، چند مستثنیات کو چھوڑ کر اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ وہ حرام کھا رہا ہے۔ یہ کس کی سوچ اور سٹرٹیجی ہے جو ’’گن پوائنٹ‘‘ پر مدتوں سے لوگوں کو حرام کھانے پر مجبور کر رہی ہے۔آخر پہ عبدالعلیم خان کیلئے خراج تحسین۔
27جنوری لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں عبدالعلیم خان فائونڈیشن ہسپتال سنٹرل جیل کا افتتاح تھا جو ’’بھائیا سرور‘‘ نے کیا کہ گورنر پنجاب چودھری سرور بنا بنایا ’’بھائیا‘‘ ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ ہسپتال بہت ہی اعلیٰ درجہ کی کوئی ڈسپنسری ہو گی لیکن اسے تو کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال کے مقابلہ پر رکھا جا سکتا ہے۔
یہاں تو ’’آزاد‘‘ لوگوں کا پرسان حال کوئی نہیں تو اندازہ لگایئے ’’قیدی‘‘ کس حال میں ہوتے ہوں گے۔ انہیں تو ڈھنگ کے واش روم اور صابن تک میسر نہیں لیکن عبدالعلیم خان نے تو سچ مچ اپنے نام کی لاج رکھ لی۔
تھینک یو خان! PTI بھلے تمہاری خدمات بھول کر احسان فراموشی کرے ---- ’’قیدی‘‘ تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
صرف مینٹیننس پر توجہ دینی ہو گی۔دیکھنا ہے کہ ’’پالیسی ساز‘‘ کوٹ لکھپت کا نام کب تبدیل کر کے تاریخ کے منہ پر ’’دولتی‘‘ جھاڑتے ہیں اور ہاں جان برادر برلاس!
گنگارام ہسپتال کا نام یہ ٹیکنیکل مجبوری کی وجہ سے تبدیل نہ کر سکے ورنہ نیت ان کی بری ہی تھی۔(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)