حکومت کو آئے اب اتنے ماہ گزر چکے ہیں کہ عوام اپنے کئے پر خوش یا پشیمان ہو سکیں۔ویسے تو حکومت کا بیانیہ یہی ہے کہ اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔ اس لئے کہ گذشہ حکومتوں نے کافی گند مچایا ہوا ہے اور اس گند کو ختم کرنے کےلئے ابھی ان کو وقت درکار ہے‘ہم سمجھتے ہیں کہ عوام اپنے نمائندے اس لئے چنتے ہےں کہ وہ ان کو ریلیف پہنچانے کےلئے کام کریں اور یہ کام وہ اسمبلی میں بحث کر کے ہی پہنچا سکتے ہیں‘ اس کےلئے ضروری یہ ہے کہ اسمبلی میں اراکین اور وزیر حضرات بمعہ وزیراعظم حاضری یقینی بنائیںاور عوام کے معاملات کی بہتری کےلئے بحث مباحثہ کرکے مستقل حل نکالیں ‘مگر بدقسمتی سے وزراءاور وزیراعظم نے ابھی تک اسمبلی کو وہ اہمیت ہی نہیں دی کہ جس کےلئے ان کو بھیجا گیا ہے‘ ابھی تک کوئی بھی کام جو ہوا ہے وہ اسمبلی کو بائی پاس کر کے کیاگیاہے۔ بجلی ‘تیل اور دیگر اشیاءکی مہنگائی کو اسمبلی میں نہیں لایاگیا‘ بغیر کسی مشورے بجلی اور دیگر اشیا ءکو مہنگا کر دیا گیا ہے بغیر یہ دیکھے کہ اس کا عوام کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا‘ ہم ہمیشہ یہی سنتے آ رہے ہیں کہ جب بھی کوئی چیز مہنگی کی جاتی ہے توایک گھسا پٹا فقرہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس مہنگائی کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ ہم ابھی تک اس عام آدمی کی تلاش میں ہیں کہ جس پر مہنگائی کا اثر نہیں پڑتا‘مگر ہمیں ہمیشہ ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہاں ایک عام آدمی ضرو ر ایسا ملا کہ جس پر واقعی مہنگائی کیا کسی بھی چیز کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ ہے وہ آدمی جوننگ دھڑنگ گلیوںبازاروں میں نعرے لگاتا پھرتا ہے۔
وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جسے نہ کپڑے لتے کی پرواہ ہوتی ہے نہ کسی کھانے پینے کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ کسی حکومت کی کوئی پرواہ ہوتی ہے‘ہاں اگرسارے لوگ اسی ڈگر پر چل نکلے تو پھر ہمارے مشےر خزانہ کی حکمت عملیوں کاان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اگر ان میں ہوش وحواس کی موجودگی ہے اور پیٹ بھی ان کےساتھ ہے توپھر ضرور اس پر اثر پڑے گا۔ ہماری حکومت کا یہ بنیادی نعرہ تھا کہ وہ عوام کو نوکریاں اور چھتیں مہیا کرے گی اور اسکی ابتدا اس نے ابھی تک نہیں کی‘ہم نہیںسمجھ سکتے کہ وہ ہزاروںلوگ جو پہلے ہی کارخانوں کی آگ نے بھوک کے حوالے کر دیئے تھے انکے ساتھ یہ نیکی کس اللہ کے بندے نے کی ہے‘اب وہ ہزاروں نوجوان اور خاندانوں کے سربراہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کو کہاں جائیں گے‘جو بے روزگار ہوئے ہیں‘اس بے روزگاری کی ایک چھوٹی سی مثال سامنے آئی ہے کہ ایک سے پانچ گریڈ کی پانچ سو آسامیوں کےلئے دس ہزارسے زیادہ لوگوں نے درخواستےں دیں جن میں اکثر گریجوےٹ اور پوسٹ گریجوےٹ تھے اور اسی جم غفیر کو کنٹرول کرنے کےلئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا‘جس شہر میں دس ہزار سے زیادہ بے روزگار نوجوان ہوں گے اس کے مستقبل کا سوچ کر ہی ہول اٹھتا ہے۔
یہ نوجوان جن کو روزگار نہیں مل رہا کیا کریں گے۔ مزدوریوں کے اڈے بھی شہر کے حسن نے چھین لئے ہیں ‘گھروں کی چھتیں بھی حسن کے حوالے ہو گئی ہیں ‘جو روزگار کے ذرائع تھے وہ چھین لئے گئے ہیں تو اسکے بعد یہ لوگ کیا کریں گے‘کیا اسکے نتیجے میں کراچی کے علاوہ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں ڈکیتی کی وارداتیں بہت زیادہ نہیں ہو گئیں ؟ کیا اب سب شہروں میں کارخانوں اور دیگر آمدن کے ذرائع کو نذر آتش نہیں کیا جا رہا؟یہ سب کیوں ہے اسلئے کہ مشےر خزانہ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر اسمبلی میں بحث کئے اشیائے صرف پر ڈنڈا پھیر رہے ہیں اور انسانوں کی بجائے شہروں کے حسن کا سوچا جا رہا ہے‘ اور اب آبادی کے اضافے پر بھی شور مچ گیا ہے ورنہ یہ تین کروڑ آبادی کا ملک اکیس کروڑ کو پہنچ کر بھی کبھی بھوکا ننگا نہیں رہا تھا مگر جب آپ ذرائع آمدن کو شہروں کے حسن پر قربان کریں گے اور چھت او رروزگار دینے کی بجائے چھینےں گے تو ہنگامہ تو ہو گا۔